اسرائیل۔فلسطین تنازعہ اور سعودی عرب

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور حماس و حزب اللہ کے مابین پڑنے والے رَن نے اسلامی دنیا کے مالی وسفارتی طور پر سب سے طاقتور ملک سعودی عربیہ کو ایک بار پھر یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ انقلابِ ایران 1979 کے بعد مسلم دنیا میں اپنی تیزی کیساتھ مٹتی ہوئی قیادت کو دوبارہ بحال کر سکے اس کی ایک شکل 31 اکتوبر اور یکم نومبر کو سعودی دارالخلافہ ریاض میں ہونیوالی دو روزہ سعودی حمایت یافتہ انٹرنیشنل الائنز یا بین الاقوامی اتحاد کی میٹنگ تھی جس کی صدارت سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بن عبداللہ نے کی۔اس بیٹھک میں دنیا کے 90 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے شرکت کی جن میں یورپین یونین اور یو این آر ڈبلیو اے یعنی ”اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے امداد فلسطینی مہاجرین مشرق قریب”نے بھی شرکت کی۔مؤخرالذکر وہ ادارہ ہے جس کی سرگرمیوں پر اسرائیل نے حال ہی میں مکمل پابندی لگا دی ہے کیونکہ اسرائیل کے الزامات کے تحت اس ادارے کے کارکنان سات اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حماس کے حملے میں ملوث تھے اور یہ غزہ میں فلسطینیوں کی بھرپور انسانی مدد امداد کر رہے تھے جو اسرائیل کے جنگ و جنون کیخلاف جاتا ہے۔ اس بین الاقوامی میں بیٹھک کا موضوع تھا اسرائیل فلسطین تنازعہ اور اس کا دو ریاستی حل یعنی اگر اسرائیل کیساتھ فلسطین کی ایک باقاعدہ بین الاقوامی قانون کی تعریف پر پوری اترنیوالی ریاست قائم کر دی جائے تو یہ تنازعہ جو کہ اب اپنی خونی تاریخ کے 77 سال پورے کرنے کو ہے حل ہو سکتا ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ یہ کوئی نیا حل نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کا پیش کردہ 1948 کا حل یہی ہے جس کے تحت دو ریاستوں یعنی اسرائیل اور فلسطین کو ایک دوسرے کے اڑوس پڑوس میں یروشلم کے بین الاقوامی شہر کیساتھ وجود میں آنا تھا جس کو مذہبی اہمیت کی وجہ سے اقوام متحدہ نے مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں تینوں کیلئے یکساں متبرک اور مقدس قرار دیا تھا اور اس کا عملی کنٹرول فلسطین اور اسرائیل دونوں کو دیا تھا۔ اس حل کو مشرق وسطی ٰکی عرب اقوام جو اسرائیل کے نزدیکی پڑوسی ہیں جن میں مصر ، شام، اردن، لبنان اور اس کیساتھ ساتھ عراق و سعودی عرب اور شمالی افریقہ کے تمام مسلمان عرب ملکوں نے یک زبان ہو کر مسترد کر دیا تھا۔پاکستان بھی ان کا ہم آواز ہی تھا۔عرب ممالک کے خیال میں اسرائیل کی ریاست کا قیام ناجائز تھا کیونکہ یہ فلسطینیوں کی سرزمین پر زبردستی قائم کی گئی تھی جس میں اس وقت کی بڑی طاقتوں اور ان کی نمائندہ بین الاقوامی تنظیم اقوام متحدہ کا کردار تھا نتیجتاً 1948 ،1956 ،1967 اور 1973 کی عرب اسرائیل جنگیں بالکل صلیبی جنگوں کی طرز پر لڑی گئیں اسرائیل تمام عالم اسلام کا ایک مشترکہ دشمن بن کر ابھرا جس کے مٹانے اور تباہ کر دینے پر ساری دنیا کے مسلمان فکری و عملی طور پر متفق تھے لیکن اقوام متحدہ کے دو ریاستی حل نے اسرائیل کے قیام کو ممکن کر دکھایا اور 1973 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے ہو جانے تک اسرائیل ایک جنگجو اور قبضہ گیر ملک کے طور پر ابھرا۔عرب کچھ بھی نہ جیت سکے اور زیادہ تر ہار گئے۔ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے 1978نے جو کہ امریکی صدر جمی کا رٹر کے انتظامیہ نے مصر اور اسرائیل کے درمیان کرایا اس تمام صورتحال میں ایک یوٹرن کا کردار ادا کیا۔یہاں سے اس سوچ نے اسلامی دنیا میں سر اٹھانا شروع کیا کہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کئے بغیر فلسطین کی ریاست کا قیام ناممکن ہے بعد کے حالات میں خاص طور پر 1992 میں سوویت یونین کی ٹوٹ جانے کے عمل نے مسلمانوں کے اسرائیل کیخلاف مضبوط مؤقف کو شدید طور پر متاثر کی۔ اس مسئلے کا دوسرا اہم سنگ میل معاہدات اوسلو 1993 اور 1995 ہیں جن کے تحت فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور فلسطینیوں کے نو گروپوں کے لیڈر و فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سربراہ یاسر عرفات نے اس پر دستخط کئے۔ اس طرح دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت شروع ہوئی۔ ان معاہدات میں بنیادی چیزوں پر توجہ تو دی گئی تھی لیکن عملی قدم نہیں اٹھایا گیا جس میں سر فہرست اسرائیل کی اردن مغربی کنارہ،گولان پہاڑیاں اور دیگر مقبوضہ علاقوں سے واپسی تھی۔ 1990 اور 2000 کی دہائی میں اسرائیل اگرچہ باتوں کی حد تک متفق تھا کہ اس کو 1967 کے اسرائیلی بارڈر کے اندر واپس جانا ہے لیکن یہ معاہدات اپنی آخری شکل میں اسرائیل سے مقبوضہ علاقہ جات خالی نہ کرا سکے جہاں پر فلسطین کی ریاست کو وجود میں آنا تھا اس لئے اسرائیل کیخلاف فلسطینیوں کی جدوجہد انتفادہ کی شکل میں جاری رہی اور 8 اکتوبر 2023 آگیا۔اس دوران 1979 و بعد ایران اسلامی انقلاب کے عمل سے گزرا اور مشرق وسطیٰ میں ایک مضبوط نظریاتی و فوجی قوت کے طور پر سامنے آیا۔ اس نے براہ راست سعودی برتری کو اسلامی دنیا میں چیلنج کیا۔ اس لحاظ سے انقلاب ایران اس تمام فلسطین اسرائیل تنازعے میں ایک تیسرا سنگ میل بن جاتا ہے جہاں سے سعودی ایران چقپلش کا آغاز ہوتا ہے ایران نے فلسطین کے قیام کے بارے میں وہ نقطہء نظر اپنایا ہے جس کی بنیاد پر عربوں اور اسرائیلیوں کے مابین چار جنگیں ہوئیں۔ ایران کا مؤقف مکمل طور پر اسرائیل کو ختم کر دینے پر مبنی رہا ہے۔دوسری جانب اس مسئلہ کا چوتھا سنگ میل عرب سوچ میں کے کیمپ ڈیو ڈ اور اوسلو معاہدات سے آنے والی تبدیلی ہے جس کے بعد عرب اس بات پر قائل نظر آتے ہیں کہ اسرائیل کو مشرق وسطی ٰسے نہ نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی شکست دی جا سکتی ہے بلکہ اس مسئلے کا حل پرامن بقائے باہمی میں پوشیدہ ہے۔ فلسطینیوں میں بھی دو رویے ملتے ہیں ایک نسبتاً کم پسندیدگی حاصل کر سکا ہے جو کہ یاسر عرفات اور ان کے بعد محمود عباس کا ہے کہ اسرائیل کیساتھ زندہ رہنا ہے اور دوسرا حماس، الاقصیٰ بریگیڈ اسلامی جہاد وغیرہ کا ہے کہ وہ اسرائیل کو نیست و نابود کر دینا چاہتے ہیں۔
دیگر لفظوں میں ایک سعودی اور ایک ایرانی رویہ ہے جو اس مسئلے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اوسلومعاہدات 1993 و 95 کے بعد 2002 میں سعودی بادشاہ عبداللہ کی طرف سے عرب قیام امن کا نقشہ سامنے آیا اور اس کیساتھ 2003 میں عرب لیگ نے مشرق وسطی میں قیام امن کا روڈ میپ بھی دیا۔ اس تمام عمل میں 1996 میں ہونیوالی عرب غیر معمولی بیٹھک کی سوچ کار فرما تھی جس کے تحت یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اگر اسرائیل مقبوضہ علاقے خالی کر دے تو عرب ریاستیں اس کو مشترکہ طور پر تسلیم کر لیں گی اسرائیل کو ایک مشترکہ تحفظ کی یقین دہانی کیساتھ ساتھ اس بات کا یقین بھی دلایا گیا تھا کہ فلسطینی مہاجرین کی وہ بڑی تعداد جو مختلف عرب ملکوں میں ہے اس کو واپس فلسطین کی ریاست نہیں بھیجا جائیگا کیونکہ اسرائیل فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خوفزدہ تھا اور اپنے پڑوس میں اتنے زیادہ تعداد میں فلسطینی مہاجروں کو واپس لا کر بسانے کے حق میں نہیں تھا۔ لیکن اسرائیل اس وقت تک سوچ بدل چکی تھی اور اس کی جانب سے نہ ہی 1996 اور نہ ہی 2002 یا 2003 میں کی گئی پیشکشوں کا کوئی جواب آیا۔ بجائے اس کے اسرائیل کے مظالم مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں پر اور بڑھ گئے اور اس کیساتھ ساتھ دنیا کے مختلف علاقوں سے یہودی آباد کا رلاکر مقبوضہ بیت المقدس ،مغربی کنارہ ، خان یونس وغیرہ میں بسانے شروع کر دئیے گئے۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ کا پانچواں سنگ میل 2020 اور 2022 میں امریکی ٹرمپ انتظامیہ کے زیر اہتمام ہونیوالے ابراہا م معاہدات ہیں جس کے تحت ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل متحدہ عرب امارات کے مابین اگست 2020 ، بحرین ستمبر 2020 ، سوڈان اکتوبر 2020 ، اور مراکش دسمبر 2020تعلقات نارمل کرنے کے معاہدات دستخط کرائے۔ان معاہدات کو سعودی عرب کی مکمل اشیرواد حاصل تھی اور ان کا دور رس مقصدد ایران کے خلیج میں بڑھتے ہوئے اثر و نفوزکو ختم کرنا تھا۔فلسطینی اسرائیل تنازع کا چھٹا اہم سنگ میل موجودہ جانشین بادشاہ شہزادہ محمد بن سلمان کا ویژن 2030 ہے جس کے تحت سعودی عرب کو مکمل طور پر ایک دینی ریاست سے جدید سیکولر ریاست بنانا ہے اور امریکہ و اسرائیل کی حمایت سے سعودی قیادت کے کردار کو کم از کم مشرق وسطیٰ کی حد تک واپس لانا ہے اس ویژن کے تحت سعودی عرب نے یہ بین الاقوامی کانفرنس اس مسئلے کے دو ریاستی حل کو قابل قبول بنانے کیلئے بلائی تھی۔یہ بین الاقوامی سعودی حمایت یافتہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کینیسٹ 24 جولائی کو اس سال دور یاستی فارمولے کو مسترد کر چکی ہے اس کی بجائے وہ مشرقی بیت المقدس ،مغربی کنارہ کے قبضہ شدہ علاقوں میں 7 لاکھ 50 ہزار یہودی آباد کار لا کر بسا چکی ہے۔ اسرائیل کے خیال میں آج غزہ اور دیگر علاقے فلسطین کے نہیں ہیں بلکہ یہ متنا زعہ علاقہ ہیں جن کو اسرائیل طاقت کے ذریعے کنٹرول کر سکتا ہے۔ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے جب کہ اس کانفرنس کی پیشروں کانفرنسز میں جو زیتون کی شاخ اسرائیل کو پیش کی گئی تھی وہ خشک ہو کر ٹوٹ چکی ہے اسرائیل کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس کو کوئی تسلیم کرتا ہے یا نہیں وہ 1967 کے مقبوضہ عرب علاقوں پر اپنی سرحد کو فطری خیال کرتا ہے اور اس سے آگے بڑھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے مسلم ملکوں نے کیمپ ڈیوڈ ، اوسلو اور ابراہام معاہدات میں سب کچھ کھو دیا ہے۔ اب سعودی عرب اور مصر اپنی سوچ کے مطابق ڈیل آف دی سنچری کرنا چاہتے ہیں جس میں سعودی عرب امریکہ سے ایٹمی طاقت اور فوجی تعاون کے عوض اسرائیل سے سفارتی تعلقات تک قائم کرنے پر تیار ہے دیکھنا یہ ہے کہ سال کے آخر تک مشرق وسطیٰ کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ابھی تک تو یہ صحرا کا جہاز امریکہ اور اسرائیل کی جانب رواں دواں ہے۔

مزید پڑھیں:  شہر میں پھولوں کی دکانیں کیوں نہیں ہیں