سابق وزیر اعظم نواز شریف کے داماد اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رہنما کیپٹن (ریٹائرڈ)صفدر نے دعوی کیا ہے کہ عوام کی خدمت کا کوئی فائدہ نہیں، سیلوٹ کرنے سے سب ملتا ہے۔ مانسہرہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ۔ کیپٹن صفدر کا کہنا تھا کہ عوام کی خدمت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، سیلوٹ کرنے سے سب ملتا ہے، سیلوٹ مارنے سے47 نمبر کی پلیٹ بھی مل جاتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ووٹ کو عزت ملنے تک ملک ٹھیک نہیں ہو گا، ووٹوں سے نہیں مخصوص جگہ سیلوٹ مارنے سے اسمبلی، سینیٹ اور پارٹی بھی ملتی ہے۔سابق وزیر اعظم کے داماد اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے شوہر ہونے کے ناتے موصوف کا اقتدار کی راہداریوں اور سیاسی دائو پیچ سے لے کر انتقام کا نشانہ بننے تک مختلف حوالوںسے سیاست و حکومت سے ان کا قریبی رابطہ رہا ہے نیز بعض اوقات وہ سیاسی جلسوں اور پارلیمان میں کھڑے ہوکر ایسی صاف گوئی کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان کی باتوں سے مخالفین بھی اختلاف نہیں کرتے مانسہرہ کے جلسے میں انہوںنے فارم 47 اور ووٹوں کی بجائے سلوٹ مارنے کو حصول اقتدار کا کار گر فارمولہ گردان کر نہ صرف مخالفین کے الزامات کو درست اور اقتدار میں بیٹھے افراد کے اقتدار و حکومت پر سوالات ہی نہیں اٹھائے بلکہ ایسی حق گوئی کا مظاہرہ کیا ہے جو عوام میڈیااور سیاسی مخالفین سبھی کے لئے یکسان حق گوئی کا مظہر ہے اس طرح کے خیالات کا اظہار نئی بات نہیں بلکہ آئے روز ان کی تکرار ہوتی ہے لیکن بڑی بات یہ ہے کہ برسراقتدار جماعت کے کسی رکن کی جانب سے یہ کام کیا گیا ایسے میں ان کا بیان خود اپنی جماعت کی حکومت کوآئینہ دینے کے مترادف ہے جس کی جرأت ہر کسی میں نہیں ہوتی اور نہ ہی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر ہر کوئی اس وقت سچائی سامنے لانے کی زحمت گوارا کرتا ہے جب ا پنوں کی حکومت چل رہی ہو سیاستدانوں کو تو مخالفین کو اقتدار اس طرح سے ملنے کاشکوہ رہتا ہے لیکن کبھی اپنے بارے میں وہ اس سوچ کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کیپٹن صفدر نے ملکی سیاست اور حصول اقتدارکی ایک ایسی معلوم کہانی کو عوامی سطح پر واشگاف الفاظ میں بے نقاب کیا ہے جو قطعاً راز کی بات نہیں لیکن اس کا ببانگ دہل اعتراف بہت بڑی بات ہے ہمارے ہاں دوسروں کی آنکھ پر تنکا تو دیکھنے کا رواج ہے اور اپنی گردن پر شہتیر سے نظریں چرانے کا رواج ہے یہی وہ بدعت ہے جس پر چلنے سے ملکی سیاست اور جمہوریت کا یہ حشر ہوا ہے اور حکومت و اقتدار بے وقعت ہو گئی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ سودے بازی کرکے اقتدار کا حصول ہے ستم بالائے ستم یہ کہ اب تو یہ نوبت بتائی جاتی ہے کہ جب عوامی حمایت سے اقتدار کی منزل کو پالنے کی باری آتی ہے تو منزل دور کر دی جاتی ہے اور جب عوام دوسروں کے حق میں فیصلہ دینے آتے ہیں تو من پسند اور منظور نظر افراد کو آگے لایا جاتا ہے تاکہ احسان جتا کر ان کو اپنی راہ پر چلے میں آسانی رہے ہم سمجھتے ہیں کہ اس عمل سے سیاستدان کسی طور بری الذمہ اور مبرانہیں یہ سیاسی کردار ہی ہوتے ہیں جو اگر انکار کی لکیر پرجم کرکھڑے ہو جائیں اور کوئی بھی کٹھ پتلی بننے کو تیار نہ ہو تو اس عمل کو فل سٹاپ لگ سکتاہے اس امر کا صرف اعتراف کافی نہیں بلکہ اس جرأت راندانہ کے مظاہرے کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بند کے آگے بند باندھنے کے لئے سیاسی کرداروں کو اپنے سیاسی اختلافات کو یکسر بھلا کر عوامی فیصلے کو تسلیم کرنے کا مصمم ارادہ کرتے ہوئے اس پر پوری طرح کاربند ہونا ہو گا اس کے بعد ہی حکومت و پارلیمان کی بالادستی اور وقعت کے سفر کا آغاز ہو سکے گا۔ اس وقت ملک میں سیاسی جماعتیں جس طرح باہم درست و گریباں اور عطار کے لڑکے ہی سے سودے بازی کی جو جگالی کر رہی ہیں اس ماحول میں موصوف کی بات صدا بصحرا ثابت ہونا فطری امر ہو گا جب تک یہ کیفیت رہے گی تب تک تبدیلی اصلاح اور جمہوریت و استحکام کے منزل کے قریب آنے کی توقع نہیں کی جا سکتی ساری سیاسی قیادت کو اگر اس امر کا ادراک ہوجائے اوروہ چور دروازے سے اقتدار کی منزل پانے کو منزل بنا لیں اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہوںتبھی ملک میں با اختیار جمہوری حکومتوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گی دوسری کوئی صورت نہیںان عوامل کا ادراک سے ہی ملک میں میثاق جمہوریت کی راہ ہموار ہوسکے گی سیاسی جماعتیں اس کی ضرورت تو محسوس کتی ہیں مگر پھر انجانے خوف مفاد پرستی اور دبائو کے ساتھ ساتھ مخالفین کو برداشت نہ کرنے کا رویہ غالب آجاتی ہے نتیجتاً ملک میں ہر انتخاب کے بعدجمہوریت کی سورج گرہن کے ساتھ طلوع ہوتی ہے اسی گرہن کی زد میں ہی حکومت بنتی ہے کبھی مدت پوری کرنے کی نوبت آتی ہے اور کبھی آدھے راستے میں گھر بھیج دیا جاتا ہے جس کی ذمہ داری سے وہ خود بھی بری الذمہ نہیں ٹھہرتے ۔