انتہائی سرعت کے ساتھ صوبائی وزراء اور معاونین خصوصی وغیرہ کی مراعات میں مزید اضافہ کا ترمیمی بل اکثریت کے ساتھ منظوری لی گئی ۔ اس نئے قانون کی روشنی میں صوبائی وزراء کو اپنی مدت کے دوران ایک مرتبہ گھر کی تزئین و آرائش کے سلسلے میں10لاکھ روپے دئیے جائیں گیاس رقم سے گھروں کے لئے پردے، کارپٹ، ائر کنڈیشن اور ریفریجریٹر وغیرہ خریدنے کی اجازت ہوگی اور قلمدان چھوڑنے کے بعد یہ تمام سامان محکمہ انتظامیہ کو واپس کیا جائے گا ۔ اس طرح صوبائی وزیروں کیلئے کرایہ کے مکان میں رہائش کی صورت میں ماہانہ دو لاکھ روپے دئیے جائیں گے۔صوبائی دارالحکومت پشاور میں مکانات کے کرایوں میں اضافہ کے بعد قدرے اضافہ تو ضروری تھا لیکن یکایک 70 ہزار سے دو لاکھ کرتے ہوئے عوامی حکومت ہونے کے دعویداروں کو کچھ عوام اور سرکاری خزانے کا بھی خیال رکھنا چاہئے تھا اسی طرح تزئیں و آرائش کے لئے بھی خاصی رقم کی منظوری لی گئی سامان کی خریداری اور استعمال کے بعد اس کی واپسی کی روایت کم ہی ہے یہاں تو گاڑیاں اور قیمتی سامان ساتھ لے جانے کا رواج ہے بہرحال ایوان سے اس کی منظوری جس عجلت میں لی گئی اگر عوامی مسائل کے حوالے سے اس قدر تیزی اختیارکی جائے تبھی نمائندگی کا حق ادا ہوسکتا ہے جس طرح دوسرے صوبوں کی حکومتوں پر تنقید خیبر پختونخوا سے ہوتی ہے اور حکومتی ترجمان سے لے کر دیگر صوبائی وزراء اور اراکین اسمبلی تنقید کرتے ہیں اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس اضافے کی منظوری ہی نہ دی جاتی مگر یہاں چونکہ مفاد عامہ کا نہیں ذاتی مفاد کی بات تھی اس لئے پلک جھکپتے منظوری مل گئی بلکہ خود ہی منظوری دے دی گئی دوسری جانب اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی اراکین کی عدم دلچسپی اور باربار کورم کا پورا نہ ہونا اس بات کا مظہر ہے کہ حکومتی اراکین کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے سرے سے کوئی دلچسپی نہیں اور وہ اسے کار عبث سمجھتے ہیں حزب اختلاف کی اسمبلی کارروائی میں اپنی مرضی کے وقت میں شرکت اپنی جگہ اجلاس کی کارروائی چلانا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر حکومتی اراکین کی عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ اجلاس تین تین گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوتا ہے پینل آف چیئرمین کو اجلاس چلانے کے لئے عدم تعاون کا سامنا ہے جس کا وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بھی یا تو نوٹس نہیں لیتے یا پھرحکومتی اراکین پر وزیر اعلیٰ کی گرفت بھی ڈھیلی پڑ چکی ہے جس صوبے کی ا سمبلی کی کارروائی ہی سنجیدگی سے آگے نہ بڑھ رہی ہو اس صوبے کی حکومت کا عوام اور سرکاری ملازمین کی توقعات کا پورا ہونا بھی سوالیہ نشان ہونا فطری امر ہے دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا میں حکومتی اور سرکاری امور دونوںہی تعطل اور ٹھہرائو کا شکار ہیں یہاں تک کہ اراکین اسمبلی حاضری لگا کر الائونس تو کھری کرلیتے ہیں مگر اجلاس میں آنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور اسمبلی ہال خالی رہتا ہے حکومت اور سرکاری مشینری دونوں کی زیادہ تر مصروفیات اب احتجاج دھرنوں اور اسلام آباد و لاہور کے راستے پر یا پھر سرکاری مشینری سمیت حوالات میں بند ہونے کی رہ گئی ہے یہ سلسلہ ایک دو بار کا ہوتا تو بھی صرف نظر کی گنجائش نہیں مگر اب یکے بعد دیگرے مختلف مراحل اور منصوبوں کا اعلان سامنے آتا ہے اور ساری توجہ پھر ان سرگرمیوں کی طرف ہو جاتی ہے ایسے میں عوامی مسائل کا نظر انداز ہونا فطری امر ہے بطور سیاسی جماعت احتجاج تحریک انصاف کا حق ہے لیکن اس کے لئے حکومتی اور سرکاری وسائل کو بروئے کار نہ لایا جائے زیادہ بہتر ہوگا کہ وزیر اعلیٰ اور ان کی حکومتی ٹیم اس سے الگ رہے تاکہ ا س میں سرکاری و حکومتی مشینری کے استعمال و آمیزش کی نوبت نہ آئے اور صوبائی حکومت کے بھی وفاقی حکومت سے ٹکرائو کا تاثر نہ ملے صوبے کے عوام نے تحریک انصاف پر تیسری مرتبہ اعتماد کے بعد یقینا حکومت سے بھی اچھے توقعات وابستہ کئے رکھے ہوں گے جن پر پورا اترنے کے لئے توجہ اور وقت کے ساتھ وسائل کے درست استعمال کی ضرورت بھی ہو گی مگر اسمبلی سے عوامی فلاح اور سرکاری ملازمین کے مطالبات کو ایک طرف رکھ کر وزراء اور معاونین کے مراعات میں اضافہ وہ ترجیحی عمل نہیں جس کی عوام حکومت سے توقع کرنے میں حق بجانب ہیںماضی کی حکومتوں پر عوام کی جانب سے دوسری مرتبہ اعتماد کا اظہار کرنے سے گریز بلاوجہ نہیں تھی اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی تین ا دوار کی حکومتوں کی کارکردگی بھی ان سے زیادہ مختلف نہیں حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کی کارکردگی اور ناکامی کے اثرات کا عوامی احتساب شروع ہو اور ہم جماعت ہی مایوسی کا شکار ہونے لگیں حکومت کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہ ہو عوام اور سرکاری ملازمین اطمینان کے اظہار کی بجائے مایوسی کاپھیل جائے تو اس کانتیجہ کیا نکلے گاایک اور بڑی مشکل بدعنوانی کی شکایات میں اضافہ کی صورت میں عوامی حلقوں میں زیر گردش ہے جس سے حکومت کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے جہاں پارٹی قیادت اور حکومتی عہدیداروں کو اپنے مفادات اور مراعات میں اضافہ کی پڑی ہے وہاں کچھ وقت نکال کر عوامی امنگوں اور ان کی توقعات کا بھی جائزہ لے کر ان پر پورا اترنے کی کوشش کی جائے تو موزوں ہوگا جس میں مزید تاخیر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ۔