سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم26ویں آئینی ترمیم کی توہین اور جمہوریت کے چہرے پر کالک ہے۔ جمہوریت اور ووٹ کو عزت دینے کے علمبردار پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ( ن) آج ایک ایسا ایکٹ پاس کر رہے ہیں جو اپنے ہاتھوں سے جمہوریت کے چہرے پر کالک ملنے کے مترادف ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ حکومت کو سوچنا چاہئے کہ وہ26ویں آئینی ترمیم میں کن شقوں کو واپس لینے پر آمادہ ہوئی ہے سربراہ جے یو آئی نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ آئین کا تقاضا ہوگا کہ کل آپ نے وہ سارے اختیارات واپس لئے جس سے جمہوریت کو خطرہ تھا؟ آج حکومت نے ایکٹ پاس کرکے اپنے ہی اس عمل کی نفی کردی ہے، یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ایک طرف یہ گھن گرج تاہم دوسری جانب ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ان کا اختلاف مختلف جماعتوں سے ہے لیکن اس کے ساتھ ان کے تعلقات بھی قائم ہیں اور تلخیاں نہیں ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ سیاسی دائو پیچ کے ماہر پہلے سے ہی تھے لیکن حالیہ چند مہینوں میں حیرت انگیز طور پر وہ جس طرح دریا کے دونوں کناروں کو ساتھ ملانے کا فارمولہ وضع کرنے میں کامیابی حاصل کی وہ حیرت انگیز تھی اس ساری سیاسی شعبدہ بازی کے باوجود ان کے سیاسی قد میں بظاہر تو اضافہ لگتا ہے مگر طویل المدتی بنیادوں پر وہ اپنی قدر کھونے کا خطرہ مول لے چکے ہیں ان کا تازہ بیان خود اس کے کردار کی نفی ہے کہ جس حکومت کوکندھا دے کر وہ 26ویں ترمیم ممکن بنا چکے اب اس کے اثرات و مابعد کے اقدامات و عوامل پر وہ معترض ہیں جو ان کی حمایت کے بغیر ممکن نہ تھا اب جبکہ وہ ممکن ہوچکا تو اس کے بعدحکومت کے جانب سے طوالت اقتدار کے اقدامات کے طور پر مرضی کی تبدیلیاں اور ضوابط لاگو کرنے کے مواقع پیدا کرنا کسی اچھنبے کی بات نہیںموصوف ایک جانب تنقید کے باوجود ازخود تلخیوں کے ساتھ تعلقات کی بھی موجودگی کا اعتراف کر رہے ہیں سیاسی دنیا میںتعلقات و روابط ہوتے ہیں لیکن جہاں گنجائش ختم ہوجائے وہاں راستے جدا بھی کرنا پڑتے ہیں مگر موصوف راستہ جدا کئے بغیر اور بوقت ضرورت حمایت کے باوجود جس ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں اس سے دوغلے پن کا احساس ہوتا ہے جو ملکی سیاست میں کوئی نئی بات نہیں بہتر ہوگا کہ سیاستدان راست گوئی اور عملیت پسندی کی طرف آئیں اور عوام کو بے وقوف بنانے سے باز آئیں۔