بنک دولت پاکستان کی جانب سے شرح سود میں اڑھائی فیصد کمی خوش آئند ہے جون کے بعد یہ مسلسل چوتھی کٹوتی ہے ملکی تاریخ میں دیکھیں تو یہ گزشتہ چار ماہ میں سات فیصد کی کمی ہے مگر علاقائی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں اس وقت بھی شرح سود دیگر ممالک کی بہ نسبت بلند ہے ملک میں افراط زر کے سنگل ڈیجٹ میں آنے کے بعد شرح سود کو بھی سنگل ڈیجٹ میں آنا چاہئے تھا ۔ملک میں کاروباری طبقے عرصے سے اس کا مطالبہ کرتے آئے ہیں کیونکہ بلند شرح سود نے نجی طبقے کے لئے قرضوں کا حصول ناممکن بنا دیا ہے ۔ گزشتہ مالی سال کے دوران نجی شعبے نے حکومتی قرضوں کے مقابلے میں کہیں کم قرض لیا جس کی بنیادی وجہ بلند شرح سود ہے مگراب اس میں کمی اور بتدریج شرح سود میں کمی سے امید ہے کہ نجی شعبے کی حوصلہ افائی ہو گی او کاروبار میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا جس سے کاروبار اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو گا شرح سود میں کمی کے بعد نوجوانوں کی جانب سے بھی کاروبار کی طرف حوصلہ افزاء رجوع کی توقع ہے لیکن صرف شرح سود میں کمی سے ایسا ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اعتدال ٹیکسوں میں کمی اور دیگر سہولیات و مراعاتکی فراہمی پر بھی توجہ کی ضرورت ہو گی۔مالیاتی اور کاروباری نقطہ نظر سے جو بھی ہو لیکن عوامی نقطہ نظر میں شرح سود میں کمی اس وقت ہی اطمینان کا باعث ہو گی جب اس کے اثرات سے مہنگائی میں بھی کمی آئے گی شرح سود میں کمی کے اثرات کی عوامی سطح پر منتقلی میں کافی وقت درکار ہوتا ہے اور اس درمیان کوئی نہ کوئی ایسی مشکل پیش آتی ہے کہ شرح سود پر نظر ثانی کرنا پڑتی ہے اور سارے کئے کرائے پہ پانی پھرجاتا ہے اس صورتحال سے نجات قرضوں میں کمی حصول قرض کی مشکل سے چھٹکارا کی منزل کے حصول سے ہی ممکن ہے جس کی ان حالات میں توقع نہیں حکومتی مساعی کتنی بھی کامیاب اور حالات کتنے بھی موافق ہوں عوام کوابھی کافی انتظار کرنا ہے۔