(گزشتہ سے پیوستہ)خلیج اور مشرق وسطی کے حوالے سے ایک سعودی اور ایک ایرانی رویہ ہے جو فلسطین اور اسرائیل کے تنازع میں آج ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ایران نے اسرائیل کی حیثیت کو نیست و نابود کر دینے کا رویہ انقلابِ ایران 1979 کے ساتھ اپنایا جب اس کے رہبر انقلاب امام آیت اللہ خمینی نے ایک انتہائی شدید امریکہ مخالف سوچ کے ساتھ مغربی ایشیا میں موجود امریکن پولیس مین شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کے خلاف انقلاب برپا کر کے ایران کو ایک سیکولر سے اسلامی ریاست کا درجہ دیا۔ایران میں اسلامی انقلاب کے ساتھ محمد رضا شاہ پہلوی کا اسرائیل کے ساتھ1950سے جاری تعلقات کا دور ختم ہوا اور ایران نے اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کر لیے ۔جب سے اب تک ایران ، اسرائیل اور امریکہ کو ایک ہی مخالفانہ آنکھ سے دیکھتا آرہا ہے۔ اگرچہ ایران نے کبھی بھی اعلانیہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا لیکن اسرائیل اور ان کے درمیان تعلقات کی بنیاد شہنشاہ کا امریکہ کی جانب جھکائو تھا اور اسرائیل کی ایک پالیسی تھی جس کے تحت اسرائیل عرب دنیا کی دوسری جانب موجود تمام ریاستوں سے اپنے تعلقات کو بہتر رکھنا چاہتا تھا۔ دوسری طرف اسرائیل کی جانب عرب ریاستوں کا ایک واضح جھکائو 1996 میں ہی سامنے آگیا تھا جب ایکسٹرا آرڈنری عرب سمٹ یا غیر معمولی عرب بیٹھک میں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اگر اسرائیل مقبوضہ علاقے خالی کر دے تو عرب ریاستیں اس کو مشترکہ طور پر تسلیم کر لیں گی اسرائیل کو ایک مشترکہ تحفظ کی یقین دھانی کے ساتھ ساتھ اس بات کا یقین بھی دلایا گیا تھا کہ فلسطینی مہاجرین کی وہ بڑی تعداد جو مختلف عرب ملکوں میں ہے اس کو واپس فلسطین کی ریاست نہیں بھیجا جائے گا کیونکہ اسرائیل فلسطینوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خوفزدہ تھا اور اپنے پڑوس میں اتنے زیادہ تعداد میں فلسطینی مہاجروں کو واپس لا کر بسانے کے حق میں نہیں تھا۔ 2002 میں سعودی بادشاہ عبداللہ کی طرف سے عرب قیام امن کا نقشہ سامنے آیا اور اس کے ساتھ 2003 میں عرب لیگ نے مشرق وسطی میں قیام امن کا روڈ میپ بھی دے دیا۔ اس تمام عمل میں 1996 میں ہونے والی عرب غیر معمولی بیٹھک کی سوچ کار فرما تھی۔لیکن اسرائیل میں اس وقت تک سوچ بدل چکی تھی اور اس کی جانب سے نہ ہی 1996 اور نہ ہی 2002 یا 2003 میں کی گئی پیشکشوں کا کوئی جواب آیا۔ بجائے اس کے اسرائیل کے مظالم مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں پر اور بڑھ گئے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف علاقوں سے یہودی آباد کا رلاکر مقبوضہ بیت المقدس ،مغربی کنارہ ، خان یونس وغیرہ میں بسانے شروع کر دئیے گئے۔2020میں ہونے والے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل امن مذاکرات میں بنیادی بات یہی تھی کہ اسرائیل غرب اردن کے ساتھ یہودی آباد کاروں کی بستیاں نہیں بسائے گا۔ لیکن مغربی کنارہ میں اس نے30کے قریب بستیاں تعمیر کر دیں جو اس وقت یہودی آباد کاروں اور مسلم فلسطینیوں کے مابین فساد کا سبب بن گئیں ہیں۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ کا پانچواں سنگ میل 2020اور2022میں امریکی ٹرمپ انتظامیہ کے زیر اہتمام ہونے والے ابراہا م معاہدات ہیں جس کے تحت ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل متحدہ عرب امارات کے مابین اگست 2020 بحرین ستمبر2020 سوڈان اکتوبر2020، اور مراکش دسمبر 2020تعلقات نارمل کرنے کے معاہدات پر دستخط کرائے ۔ان معاہدات کو سعودی عرب کی مکمل اشیرواد حاصل تھی اور ان کا دور رس مقصد ایران کے خلیج میں بڑھتے ہوئے اثر و نفوذکو ختم کرنا تھا ۔فلسطینی اسرائیل تنازع کا چھٹا اہم سنگ میل موجودہ جانشین بادشاہ شہزادہ محمد بن سلمان کا ویژن 2030 ہے جس کے تحت سعودی عرب کو مکمل طور پر ایک دینی ریاست سے جدید سیکولر ریاست بنانا ہے اور امریکہ و اسرائیل کی حمایت سے سعودی قیادت کے کردار کو کم از کم مشرق وسطی کی حد تک واپس لانا ہے اس ویژن کے تحت سعودی عرب نے یہ بین الاقوامی کانفرنس اس مسئلے کے دو ریاستی حل کو قابل قبول بنانے کے لیے بلائی تھی ۔یہ بین الاقوامی سعودی حمایت یافتہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کینیسٹ 24 جولائی کو اس سال دور یاستی فارمولے کو مسترد کر چکی ہے اس کے بجائے وہ مشرقی بیت المقدس ،مغربی کنارہ کے قبضہ شدہ علاقوں میں 7لاکھ 50ہزار یہودی آباد کار لا کر بسا چکی ہے۔ اسرائیل کے خیال میں آج غزہ اور دیگر علاقے فلسطین کے نہیں ہیں بلکہ یہ متنا زعہ علاقہ ہیں جن کو اسرائیل طاقت کے ذریعے کنٹرول کر سکتا ہے۔ ، یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے جب کہ اس کانفرنس کی پیشرو کانفرنسز میں جو زیتون کی شاخ اسرائیل کو پیش کی گئی تھی وہ خشک ہو کر ٹوٹ چکی ہے ۔اسرائیل کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس کو کوئی تسلیم کرتا ہے یا نہیں ۔وہ1967کے مقبوضہ عرب علاقوں پر اپنی سرحد کو فطری خیال کرتا ہے اور اس سے آگے بڑھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے ۔ د لچسپ بات یہ ہے کہ اس کانفرنس کو مشترکہ عرب ۔اسلامک سمٹ کے نام سے رواں ماہ نومبر کی 11تاریخ کو سعودی عرب کے زیر اہتمام دوبارہ منعقد کیا جائے گا جس کے مزید مقاصد کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔اور سب سے اہم پہلو اس کانفرنس کا یہ ہے کہ اس سے مسلم دنیا کے نہایت طاقتور اور فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے ملکوں پاکستان ، ترکی اور ایران کے علاوہ افریقہ کے طاقتور مسلم ملکوں کو بھی الگ رکھا گیا ہے ۔ دیگر لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مشترکہ عرب اسلامک کانفرنس درحقیقت مشرق وسطی کے مسئلے سے ایران کو الگ رکھنے کی ایک کوشش ہے ۔ یہ اس عرب قومیت کے نظریہ کی ایک شکل ہے جس کی بیخ کنی اسرائیل نے ماضی میں شاہ کے ایران کا دوست بن کر کی تا کہ فلسطین نہ بن سکے اور آج اس نظریے کو ایران کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے ، مقصد پھر بھی فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کو روکنا ہے۔ ۔ اب تک سعودی ذرائع ابلاغ یہی بتا رہے ہیں کہ کانفرنس کا مقصد اسرائیل کو غزہ اور لبنان میں مظالم اور وحشیانہ فوجی کاروایئوں سے روکنا اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی پیشرفت کا جائیزہ لینا ہے۔ عرب ملکوں نے کیمپ ڈیوڈ ، اوسلو اور ابراہام معاہدات میں سب کچھ کھو دیا ہے۔ فلسطین کی نامکمل ریاست یا فلسطینی اتھارٹی جس کو ا قوام متحدہ کے 193میں سے143ممبر ممالک تسلیم کر چکے ہیں اور100سے زائد ملکوں میں اس کے دفاتر سفارتی فرائض سرانجام دے رہے ہیں، ہنوز دلِی دور است کے مصداق اب تک نامکمل ہی ہے۔ اب سعودی عرب اور مصر اپنی سوچ کے مطابق” ڈیل آف دی سنچری "کرنا چاہتے ہیں جس میں سعودی عرب امریکہ سے ایٹمی طاقت اور فوجی تعاون کے عوض اسرائیل سے سفارتی تعلقات تک قائم کرنے پر تیار ہے دیکھنا یہ ہے کہ سال کے آخر تک مشرق وسطی کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔ابھی تک تو یہ صحرا کا جہاز امریکہ اور اسرائیل کی جانب رواں دواں ہے۔