ویب ڈیسک: پشاور ہائی کورٹ نے نادراکے اشتراک سے ملک کے مختلف علاقوں میں 30 پاسپورٹ کاونٹرزکھولنے کیخلاف دائر رٹ خارج کردی، اور اس موقع پر قرار دیا کہ عدالت حکومت کے پالیسی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
وفاقی حکومت کے اس اقدام سے شہریوں کو ان کی دہلیز پر پاسپورٹ کی سروس دی جارہی ہے اور یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ 8صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس وقار احمد نے تحریر کیا ہے۔
کیس پر سماعت کے دوران وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل دولت خان ، نادرا کے وکیل شاہد عمران گگیانی اور درخواست گزاروں کے وکیل بھی پیش ہوئے۔ رٹ ڈی جی امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کے ملازمین فیصل الرحمان ودیگر نے دائر کی تھی۔
درخواست میں انہوں نے موقف اپنایا تھا کہ وفاقی حکومت نادرا کے دفاتر میں پاسپورٹ کے کاﺅنٹرز کھول رہی ہے اوریہ پاسپورٹ رولز2021کی خلاف وزری ہے۔ کاﺅنٹر کھولنے کی بجائے پاسپورٹ کے نئے 8ریجنل دفاتر قائم کیے جائیں اور اس حوالے سے سفارشات کو عملی جامہ پہنایاجائے جس کیلئے محکمہ خزانہ نے پہلے ہی 120پوسٹوں کی منظوری دی ہے۔
دوسری جانب حکومت نے موقف اپنایا کہ ارکان اسمبلی تحصیل کی سطح پر پاسپورٹ پراسیسنگ کاﺅنٹرز کے قیام کا مطالبہ کررہے تھے تاکہ لوگوں کو پاسپورٹ حصول میں آسانی ہو۔نادرا متعلقہ سنٹرز میں بلڈنگ کرایہ اور یوٹیلیٹی بلوں وغیرہ کی مد میں فی پاسپورٹ پر 1000روپے لے گی ۔
دلائل مکمل ہونے پرعدالت نے قراردیاکہ پاسپورٹ دفاتر کے قیام کے حکومتی فیصلے میں کوئی غیرقانونی اقدام یا بے قاعدگی نظر نہیں آتی اور یہ محض عوام کی بہتری کیلئے کیا گیا ہے ۔ عدالت نے رٹ خارج کردی ہے۔یاد رہے کہ 30 پاسپورٹ کاونٹرزکھولنے کا حکومتی اقدام درست قرار دیدیا گیا.
Load/Hide Comments