پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 26ویں ترمیم کی منظوری کے بعد ملک میں قانونی مبارزت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ایک جانب آئینی بنچ کا قیام عمل میں آچکا ہے تو دوسری جانب 26ویں ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں جن میں 26 ویں ترمیم کے خاتمے کے حوالے سے مطالبات شامل ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں نے (جن میں سے دونوں کے چیف جسٹس بننے کے امکانات ہوتے ہوئے بھی وہ اب اس دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں گزشتہ چند روز کے دوران موجودہ چیف جسٹس کو دو بار خطوط لکھ کر 26ویں ترمیم پر فل کورٹ بلانے کے مطالبات کئے ہیں تاہم تادم تحریر اس مطالبے کو تسلیم کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی نظر بظاہر تو اس کی وجوہات جسٹس یحییٰ آفریدی کے بطور چیف جسٹس تقرری 26 ویں ترمیم کے تحت ہونے کے بعد اس کا جواز ہی از خود ختم ہوجاتا ہے کیونکہ قانونی ماہرین اور واقفان حال کے مطابق مبینہ طور پر چیف جسٹس فل کورٹ بلاتے ہیں تو وہ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی چلانے کی غلطی کے مرتکب ہوسکتے ہیں اور یوں فل کورٹ بلانے کے بعد بطور چیف جسٹس وہ ازخود ہی اس منصب سے باہر ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر لیں گے ، اور اصولی طور پرجب انہوں نے نہ صرف چیف جسٹس کا منصب قبول کرلیا تقرری کے نوٹیفیکیشن کے بعد منصب کی حلف برداری میں حصہ لیا تو وہ اب اس سارے پراسس کو کیسے ختم کرسکتے ہیں ، مزید یہ کہ پارلیمنٹ نے 26 ویں ترمیم میں اہم نکتہ یہ بھی رکھا ہے کہ اس ترمیم کوکسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تو پھر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کس قانون کے تحت بقول ماہرین قانون اس حوالے سے فل کورٹ بلوا کر آئینی اختیارات کو چیلنج کرنے میں معاونت کر سکتے ہیں ، ایک اور نکتے پر غو کیا جائے تو جب چیف جسٹس نے محولہ دو سینئرترین ججوں کو بنچ تقرری کے معاملات پر کمیٹی میں شامل کرکے ان کی مرضی سے آنے والے دنوں میں بنچوں کے قیام کا معاملہ حل کر دیا ہے اور اس پر مذکورہ سینئر جج صاحبان نے آمناً و صدقناً کرکے خاموشی اختیار کرلی ہے تو اچانک انہیں چیف جسٹس کو خطوط لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی حالانکہ صورتحال کو تسلیم کرنے کے بعد اسے پھر اعتراضات کی بھینٹ چڑھانے کا دونوں فاضل جج صاحبان کے پاس کوئی جواز ہی نہیں تھا ، یا تو وہ بنچ تقرری والی کمیٹی میں شامل ہی نہ ہوتے اور اس کا بائیکاٹ کرکے اپنا موقف واضح کرتے یا پھر اس موقع پر خاموش رہ کر انہوں نے صورتحال کو جس طرح قبول کر لیا ہے اس کے بعد چیف جسٹس کو خطوط لکھنے کا جواز ہی ختم ہوچکا ہے مگر جو لوگ 26ویں ترمیم سے پہلے اس کے خلاف سرگرم تھے دھمکیاں دے رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ اس کے خلاف وکلاء تحریک چلائی جائے گی وغیرہ وغیرہ اب وہ بھی خاموشی کی بکل اوڑھ کر بس زبانی کلامی ہی ”احتجاج” کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں کیونکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ اس ترمیم کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا یوں لگتا ہے کہ یہ جوچند درخواستیں دائر کرکے اسے شنوائی کے لئے عدالتی کارروائی شروع اس پر بحث کرنے کے مطالبات کئے جارہے ہیں تو اس کا مقصد بھی اس کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتا کہ ان کے دعوئوں اور مبینہ دھمکیوں کے خلاف عدالتی کارروائی کے تحت فیصلے کے ذریعے 26ویں ترمیم پر ”فیس سیونگ” فراہم کی جائے بہرحال اب یہ تو فاضل چیف جسٹس کی مرضی ہے کہ وہ ان درخواستوں اور دو سینئر جج صاحبان کے خطوط کے ساتھ کیا آئینی اور قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں ممکن ہے اس حوالے سے آنے والے چند دنوں میں صورتحال واضح ہو کر سامنے آجائے البتہ دو سینئر جج صاحبان کے خطوط کا اس کے علاوہ او رکوئی مقصد نہیں ہے کہ ملک میں آئینی بحران کو ہوا دی جائے اور جواز فراہم کیا جائے ، یہ بھی اس وقت ہوا جب دونوں فاضل جج صاحبان کی امیدیں دم توڑ گئیں کہ ممکن ہے ان میں سے سینئر ترین کو آئینی بنچ کا سربراہ مقرر کرتے ہوئے دونوں کو بنچ میں شامل کیاجائے ، مگر گزشتہ روز اس حوالے سے 26 ویں ترمیم کے تحت منعقد ہونے والے اجلاس میں ان دونوں کو سرے سے آئینی بنچ کا حصہ ہی نہیں بنایاگیاجس کا ممکن ہے کہ انہیں پہلے ہی سے علم ہو گیا ہو اس لئے انہوں نے ایک اورخط لکھ کر آئینی فضا کو مکدر کرنے کی سوچ ا پنا لی ہو مزید یہ کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں مزید ججوں کی تقرری کا جو فیصلہ حکومت نے کیا ہے اس پر بھی عدالت عظمیٰ میں ”ارتعاش” پیدا ہوچکا ہے کیونکہ ان مزید 14(کم و بیش) ججوں کی تقرری سے عدالت عظمیٰ کے اندر موجود ایک مبینہ مخصوص گروپ کے ماضی میں کئے جانے والے فیصلوں کے برعکس آنے والے دنوں میں اس قسم کے رویئے کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور محولہ مخصوص گروپ کی من مانیوں کو روک لگنے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں اب صورتحال حتمی طور پر کیا رخ اختیار کر سکتی ہے اس کے لئے انتظار کرنا پڑے گا۔ تاہم ہماری دعا ہے کہ جو بھی ہو وہ ملک و قوم کے مفاد کے عین مطابق ہو۔