تاریخ کے طالب علم کی فریاد

پی آئی اے کی بولی صرف دس ارب روپے لگائی گئی ہے ۔ملی بھگت یا نا اہلی ؟ پاکستان میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ ادارے تباہ حال اور دیوالیہ ۔ قابل لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔پیچھے کرپٹ اور نااہل رہ گئے ہیں۔ دن بدن بڑھتی ہوئی کرپشن اور بدعنوانی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ صرف ایک فیصد افراد ہی قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں۔اور ان ایک فیصد کو چھڑانے کیلئے بھی سیاسی’ غیر سیاسی سفارشیں اور دولت کی دیوی آجاتی ہے۔ماضی قریب میں ن لیگ ‘ پی پی پی اور پی ٹی آئی پر جس طرح سینکڑوں مقدمات بنے۔اور پھر جس طرح اول لذکر دونوں پارٹیاں آب زمزم سے نہلا دھلا کر مسند اقتدار پر بٹھائی گئیں ۔ اور پی ٹی آئی کو نہلانے کیلئے آب زمزم تیار ہے۔ بس کچھ مک مکا کا معاملہ ہے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے۔کہ اس ملک میں قانون’ انصاف اور عدالت جیسی کوئی شے باقی نہیں رہی ہے۔تینوں بڑی پارٹیوں سے نبٹنے کے بعد حالیہ دنوں میں جس طریقے سے کمزوروں کا آخری سہارا یعنی عدالتوں کے پر کاٹ لئے گئے ہیں۔اس پر طاقتور حلقوں کو داد دینی چاہئے۔اب وہ بڑے اعتماد کے ساتھ اعلان کر سکتے ہیں۔کہ اصلی سیاسی پارٹی بھی ہم ہیں۔ عدالت بھی ہم ہیں۔جمہوریت اور آمریت کا آمیزہ بنانے والے بھی ہم ہیں۔اور اس آمیزے میں من پسند تبدیلیاں کرنے والے بھی ہم ہیں۔خارجہ’ داخلہ’ دفاع اور اقتصادی پالیسیاں بنانے والے بھی ہم ہیں۔اور آئین میں ستائیسویں سے لے کر ایک سو ستائیسویں ترمیم کرانے والے بھی ہم ہیں۔ٹھیک ہے حضور ! ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔بس تھوڑی سی تشویش یہ ہے۔ کہ تاریخ کا سبق کچھ اور ہے۔بین الاقوامی صورتحال کی تیوریاں کچھ اور بتا رہی ہیں۔حالات کچھ اور تقاضا کر رہے ہیں۔کرہ ارض کی نئی تقسیم میں عالم اسلام پھر غلام بننے والا ہے۔ایسے میں آپ کے نقشے اور منصوبے قومی یکجہتی کا تیا پانچا کر دیں گے۔ سوویت یونین کی مثال سامنے ۔جان کی امان پاوں تو عرض کردوں کہ آپ کے ہاں بھی سارے فرشتے نہیں ہیں۔ ریاست کے معاملات پر ایک منتخب پارلیمنٹ کی نگرانی ضروری ہے۔ایک بااختیار طاقتور پارلیمنٹ موجود ہوتی تو نہ تو مشرقی پاکستان کے بھائیوں پر فوجی ایکشن کی اجازت دیتی۔اور نہ غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کی اجازت دیتی۔ایک عام سویلین جنگجو بھی جانتا ہے کہ مورچے میں بیٹھا ہوا ایک جنگجو دس حملہ آور جنگجووں پر بھاری ہوتا ہے۔مختلف محاذوں پر فوجی دستے پھیلانے کی بجائے اگر سب کو اکٹھا کرکے ڈھاکہ میں مورچہ زن کر دیاجاتا۔اور ڈھاکہ میں موجود غلے اور پانی کے ذخیروں پر قبضہ کر لیا جاتا۔تو کم از کم چھ ماہ تک دشمن کا مقابلہ کیا جاسکتاتھا۔اور اس دوران اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے دوسرے دوست ممالک کے ذریعے ہمارے بہادر فوجیوں کا مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان باعزت انخلا کیا جا سکتا تھا۔ہمارے یہ بہادر فوجی بے سر و سامانی کی کیفیت میں شیروں کی طرح دشمن سے لڑے تھے۔اور عزت و وقار کے ساتھ گھر لوٹنا ان کا حق تھا۔لیکن جب معاملات مجموعی قومی دانش کی نمائندہ پارلیمنٹ کی بجائے ایک آمر کے ہاتھ میں ہوں۔تو ایسے سانحات سے تاریخ بھرا ہوا ہے۔ڈر یہ ہے کہ 1971 میں تو آدھا ملک کھو چکے تھے۔اب بقایا پاکستان کا تین چوتھائی کھو کر کہیں آپ عوام کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگتے پھریں۔لیکن عوام روٹھ کر گھروں می۔بیٹھ چکے ہوں اور آپ اقتدار سے جان چھڑانے کیلئے پھر کسی سویلین کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنانے کیلئے منت سماجت کرتے رہیں۔لیکن اس دفعہ آپ کو کندھا دینے کیلئے کوئی سویلین نہ ملے۔ان حالات میں میرے جیسا غیر سیاسی بندہ اور تاریخ کا طالب علم چپکے چپکے آنسو بہا سکتا ہے ۔ میرا اندرونی کرب مجھے کھا رہا ہے ۔ کیونکہ بقائا آدھے پاکستان میں بھی روزانہ گولیوں اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔دہشتگرد ‘ خارجی یا اسلام پسند جنوبی پختونخواہ بمع ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان کے بعد اب بنوں تک پہنچ چکے ہیں۔ ہماری بہادر مسلح افواج دلیری سے مقابلہ کر رہی ہیں۔لیکن کیا یہ مسلہ صرف میدان جنگ میں جیتنے کا ہے ؟ نہیں سر ! ان سطور میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے ازلی دشمنوں نے ان لوگوں کو اسلام کے نام پر ورغلا کر ہمارے خلاف صف آرا کیا ہے ۔ اس لئے ان لوگوں کا نظریاتی محاذ پر مقابلہ ضروری ہے۔ اس سلسلے میں سب سے ضروری چیز صاف شفاف انتخابات کے ذریعے ایک منتخب پارلیمنٹ ہے۔منتخب نمائندوں اور علما کرام کا ایک جرگہ ان لوگوں کے ساھ مستقل ڈائیلاگ کا ایک سلسلہ شروع کرے۔جائز اسلامی مطالبات کا ماننا ضروری اور آئین کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ الحمد للہ اسلامائزیشن کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ سود کے خاتمے کیلئے جنوری 2028 کی ڈیڈ لائن مقرر ہو چکی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے مناسب فضا موجود ہے۔اسے مزید نکھارا جا سکتا ہے ۔اب مزید اسلامائزیشن کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ باقی نہیں رہی ۔ان مخالفوں کو قائل کرنا ہے کہ آپ بلاوجہ اپنی اور پاک فوج کے کلمہ گو مومنوں کی جانیں ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔پاک فوج اسلام کی فوج ہے۔ اللہ کے فضل و کرم پر یقین ہے کہ ان جرگوں کے ذریعے ان مخالفین کا ایک بڑا حصہ بندوق پھینک کر ملک کی تعمیر و ترقی میں لگ جائیگا۔ باقی ہٹ دھرم لوگوں کے خلاف مناسب کاروائی آسان ہو جائیگی۔اور پاک فوج کے مجاہدوں کا جانی نقصان بھی بہت کم رہ جائیگا۔پاک فوج کے مجاہدوں کا موٹو ایمان’ تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔مشرکوں اور صیہونیوں کے خلاف جہاد ۔ باہمی خانہ جنگیوں میں خون ضائع کرانا نہیں۔ لیکن ہم جیسے طالب علموں کی بات کون سنتا ہے ؟ میں صدیق سالک کی طرح ایک نیا ڈھاکہ ڈوبتے دیکھ رہا ہوں۔ چشم تصور سے آخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر کے سامنے اس کے بیٹوں کے کٹے ہوے سر پلیٹ میں سجے ہوے دیکھ رہا ہوں۔عظیم اسلامی سلطنت بغداد کے بادشاہ کو گھوڑوں کے پاوں تلے روندتے ہوے دیکھ رہا ہوں۔آٹھ سو سالہ سپینش اسلامی مملکت کی تباہی اور سقوط غرناطہ دیکھ رہا ہوں۔جس کا آخری سلطان جلاوطنی کے سفر میں بار بار پیچھے مڑ کر اپنی چھینی گئی سلطنت کو دیکھ رہا تھا۔اورآنسو جاری تھے۔تو اس کی ماں نے اسے ڈانٹا کہ جس سلطنت کو تم مردوں کی طرح بچا نہ سکے۔اس پر عورتوں کی طرح ٹسوے بہانے کی ضرورت نہیں۔یقین کریں حضور ! صاف شفاف انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی جینوئن پارلیمنٹ’ مذہبی پیشواوں کی نظریاتی تائید اور عوام کی شرکت کے بغیر کوئی فوج نہ تو جنگ لڑ سکتی ہے اور نہ ملک سنوار سکتی ہے ۔ تاریخ کا سبق یہی ہے۔

مزید پڑھیں:  عوامی بہبود کے منصوبے