”بولتے کیوں نہیں مرے حق میں”

صلاح الدین ایوبی جس کو فاتح بیت المقدس بھی کہا جاتا ہے سے پوچھا گیا کہ آپ کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا،فرمایا ڈرتا ہوں کہ روز قیامت اللہ تعالی پوچھے گا بیت المقدس غیروں کے قبضے میں تھا اور تم مسکرا رہے تھے۔آج کل مغربی دنیا میں بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کو بے حد سراہا جاتا ہے بلکہ ایک انگریز مورخ لین پول سلطان صلاح الدین ایوبی کی تعریف میں لکھتا ہے کہ فی زمانہ امت مسلمہ میں دور دور تک ایسے حکمران کی جھلک بھی نظر نہیں آتی۔فلسطین کے موجود حالات کو دیکھتے ہوئے ایک اور ایوبی کی اشد ضرورت ہے ۔آج فلسطین کی بیٹیاں چیخ چیخ کر مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کو بلا رہی ہیں مگر شاید وہ یہ بھول چکی ہیں کہ نہ آب کوئی صلاح الدین ایوبی باقی ہے اور نہ ہی اسلام کا علم بلند کرنے والے سپہ سالار۔روز محشر یہ بے گناہ ضرور آپنے قتل کا سبب پوچھیں گے اور قاتل کا گریبان پکڑ کر ان سے سوال ضرور کریں گے کہ ہمیں کیوں مارا،نہ صرف قاتلوں سے پوچھ گچھ ہوگی بلکہ ان تمام مسلمان سربراہان اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز اشخاص سے بھی سوال ہوگا جنہوں نے چپ رہ کر ظالم کو اور قوت عطا کی ہے ۔ مسلمان بے عملی کا شکار ہوگئے ہیں ان کی غیرت،جزبہ،حوصلہ،ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور مظلوم کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ آب ان میں باقی نہیں رہا۔میرے مخاطب وہی لوگ ہیں اور میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدارا اب بس کیجئے اور اپنے منہ سے چپ کا نقاب اتار پھینکے ۔مودبانہ عرض ہے کہ اپنا سر ریت سے باہر نکالیے اور سوال کرنا شروع کیجئے،بولنا شروع کیجئے ،پوچھنا شروع کیجئے کیونکہ یہ آپ ہی لوگ ہیں جو توازن برقرار رکھتے ہوئے ان عوامل کا محاسبہ بھی کرسکتے ہیں اور وہ ماں جو آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے پکار رہی ہے کہ یااللہ انہوں نے میرے سامنے میرے بیٹے کو مار دیا،یا اللہ تو دیکھ رہا ہے تو انصاف کر۔اس ماں کے درد کا درماں بھی ہوسکتا ہے،ورنہ یاد رکھیے کہ خدا تو دیکھ ہی رہا ہے اور وہ آپ کے بغیر بھی انصاف قائم کرنے پر اتنا ہی قادر ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ جب وہ انصاف قائم کرے تو ظلم دیکھ کر چپ رہنے والوں کو بھی ظالموں کی فہرست میں شامل کرلے۔غزہ میں کفن ختم ہوگئے،غزہ کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ مریض ہماری آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہے ہیں اور ہم ان کی جانیں بچانے کے لئے کچھ نہیں کرپا رہے ہیں ۔زمینی آپریشن اور ناکہ بندی سے خوراک اور ادویات کی قلت, شہیدوں کو دفنانے کے لیے تابوت اور کفن کم پڑ گئے۔یاد رکھو! اگر آج کسی اور پر ظلم ہورہا ہے اور ہم نے خاموشی اختیار کی ہے تو کل ہم پر بھی ظلم ہو سکتا ہے ۔دنیا بھر کے مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے،ظلم وجبر پر ان کی مسلسل خاموش سمجھ سے باہر ہے ۔ خون ناحق بہہ رہا ہے اور ہم خاموش ہیں۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے جبرائیل کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو اس کی پوری آبادی کے ساتھ الٹ دو! جبرائیل نے عرض کیا خداوند اس شہر میں تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے پل جھپکنے کے برابر بھی کبھی تیری نافرمانی نہیں کی۔اللہ تعالی کا حکم ہوا کہ اس بستی کو اس بندے پر اور اس کے دوسرے سب باشندوں پر الٹ دو کیونکہ کبھی ایک ساعت کے لیے بھی میری وجہ سے اس بندہ کا چہرہ متغیر نہیں ہوا۔بستی والوں کے فسق و فجور اور ان کی بد اعمالیوں پر کبھی اس کو غصہ بھی نہیں آیا،لہٰذا اللہ تعالی کے نزدیک یہ بھی اس درجہ کا جرم تھا بس جبرائیل امین کو حکم ہوا کہ بستی کے فاسق فاجر باشندوں کے ساتھ اس بندے پر بھی بستی کو الٹ دو۔مسئلہ فلسطین کوئی آج کا مسئلہ تو نہیں ہے۔اس کشمکش کو ایک صدی ہوچلی ہے ۔فلسطینی مسلمانوں نے دربدر بھٹکتے جن یہودیوں کو ترس کھا کے پناہ دی تھی، آج وہ ہی محسن کشی پر اتر آئے ہیں۔اسرائیلی جارحیت صرف غزہ تک محدود نہیں رہے گی ،گریٹر اسرائیل کا جو نقشہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں موجود ہے،اس کیمطابق فلسطین ، لبنان ،شام، اردن،ترکی کا اسکندریہ ، عراق ، مصر سے سینا،ڈیلٹا کا علاقہ،سعودی عرب سے بالائی نجدوحجاز جس میں نعوذباللہ مدینہ منورہ کو بھی شامل کیا گیا ہے یہ سب شامل ہیں۔ترکی کے صدر طیب اردگان نے بجا طور پر کہا ہے کہ اگر ہم نے بیت المقدس کھودیا تو پھر ہم مکہ اور مدینہ بھی کھودیں گے۔اگر ان خطرناک عزائم کو روکنا ہے تو پھر مسلمانوں کو متحد ہوکر کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ہزاروں معصوم شہری بشمول خواتین اور بچے شہید کیے جا چکے ہیں۔زخمیوں کے علاج معالجہ کی خاطر خواہ ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام ناکافی پڑگیا ہے۔پانچ نمازوں کے ساتھ چھٹی نماز جنازہ کی پڑھائی جارہی ہے۔طاغوتی قوتیں دنیا میں مسلمانوں کا خون چوس رہی ہیں ،ہمیں ان کے مقابلے میں قیام کرنا ہوگا،ورنہ ہمارا انجام بھی دنیا کی دیگر اقوام کی طرح ہوگا۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے مسلم سپہ سالاروں نے ہمیشہ دین اسلام کے پھیلائو کے لیے دوسری ریاستوں اور علاقوں کی طرف رخ کیا، آج دین اسلام کا پھیلا تو درکنار اپنے علاقوں کا دفاع کرنا مسلم حکمرانوں کے لیے مشکل ہوگیا ہے۔اس تحریر کا مقصد فلسطین کے مسئلے پر اظہارِ خیال کرنا نہیں ہے بلکہ ایک عملی جائزہ مقصود ہے،ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ اظہار کے تقاضے الگ ہیں اور عملی کام کے تقاضے الگ،میں نے ذاتی طور پر یہ محسوس کیا ہے کہ تمام مسلمان ریاستیں آپس میں دفاعی معاہدات کرنی چاہئے جیسا کہ امریکہ نے نیٹو طرز پر معاہدہ کیا ہوا ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر کوئی حملہ کرے گا تو معاہدہ میں شامل تمام ممالک پر یہ حملہ تصور ہوگا۔

مزید پڑھیں:  عوامی بہبود کے منصوبے