ویب ڈیسک: آئی ایم ایف رضامندی کے دوآپشنز حکومت کے پاس موجود ہیں، منی بجٹ یا اخراجات میں کمی سے ہی مالیاتی خسارہ اور بنیادی اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت نے آئی ایم ایف سٹاف مشن کے ساتھ اہم مذاکرات کی تیاریاں شروع کر دی ہیں، اور جلد ہی حکمت عملی کو حتمی شکل دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ ذرائع کے مطابق منی بجٹ کی صورت میں آگے بڑھنے کے لیے 7 تجاویز حکومت نے اپنے سامنے رکھ دی ہیں۔
ان تجاویز میں مشینری، صنعتی خام مال اور تجارتی خام مال کی درآمد پر پیشگی انکم ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ، سپلائی، سروسز اور معاہدوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں ایک فیصد اور مشروبات پر ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ مختلف شعبوں پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے ایف بی آر حکومت کو ٹیکس شرح میں اضافہ نہ کرنے کی سفارش کرنے کے لیے تیاریاں کئے بیٹھا ہے۔ حکومت کے پیش نظر اس وقت آئی ایم ایف سٹاف مشن کے سربراہ نیتھن پورٹر کی قیادت میں ہونے والے مذاکرات ہیں، جس کے لیے وہ اپنی حکمت عملی مستحکم کرنے جا رہی ہے، یاد رہے کہ آئی ایم ایف سٹاف 11 نومبر سے 15 نومبر تک دورہ پاکستان کرنے جا رہا ہے۔
موجودہ مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں ایف بی آر کو 189 ارب روپے کی آمدنی کی کمی کا سامنا کرنا پڑا، ماہرین اندازہ لگا رہے ہیں کہ اس میں مزید اضافہ ممکن ہے، ریونیو اتھارٹی کا یہ بھی ماننا ہے کہ حکومت کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل کرے کہ وہ 12913 ارب روپے کی آمدنی کے ہدف میں کمی کرے۔
تاہم اس حوالے سے ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا، حکومت اس کوشش میں ہے کہ اپنے مطالبات عالمی مالیاتی فنڈ کے سامنے رکھے اور اس پر اسے قائل کرے، اس کے علاوہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف رضامندی کے دوآپشنز منی بجٹ یا اخراجات میں کمی کی صورت میںموجود ہیں، ان آپشنز سے ہی مالیاتی خسارہ اور بنیادی اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
Load/Hide Comments