ویب ڈیسک: عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط پوری کرنے کیلئے پنجاب کی صوبائی حکومت کی جانب سے بڑے زمینداروں پر زرعی ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مسلسل کوششوں کے باوجود اور ٹیکس لگانے کے بعد بھی مرکزی اور پنجاب حکومت آئی ایم ایف اہداف کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ اس لئَے اب ٹیکس کے ذریعے بڑے زمینداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اب کی بار آئی ایم ایف شرائط پورا کرنے کے لیے پہلی مرتبہ پنجاب میں زراعت سے وابستہ لوگوں کو نشانے پر رکھ دیا گیا ہے، گندم خریداری میں مسائل کا شکار زمیندار اب ٹیکسز سے مزید متاثر ہونے جا رہے ہیں، کیونکہ حکومت کی جانب سے بھاری آمدن حاصل کرنے والے بڑے زمینداروں پر سپر ٹیکس لگانے اور لائیو سٹاک سے ہونے والی آمدن کو زرعی ٹیکس میں شامل کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
پنجاب کی صوبائی کابینہ سے بذریعہ سرکولیشن منظوری کے بعد پنجاب زرعی انکم ٹیکس ایکٹ 1997میں ترمیم کے لیے دی پنجاب ایگریکلچر انکم ٹیکس (ترمیمی) ایکٹ 2024‘ کے بل کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے، اس بل کو منظوری کے لیے جلد اسمبلی اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ نئے قانون کے سیکشن 3 اور 4 کے تحت کسان اب اپنے تمام زیر کاشت رقبے کی اسٹیٹمنٹ یا کل زرعی آمدن کی ریٹرن جمع کروائیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے ایکٹ کے تحت زرعی ٹیکس لینڈ ہولڈنگ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس سے کمائی کی بنیاد پر لگایا جائے گا جبکہ ایکٹ 2024 میں 1997 کے زرعی انکم ٹیکس ایکٹ میں درج ٹیکس کا شیڈول بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ترمیمی ایکٹ 2024 کی پنجاب اسمبلی سے منظوری کے لیے اجلاس 11 نومبر کو طلب کیا جا سکتا ہے۔
Load/Hide Comments