امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 47ویں صدر کے طور پر کامیاب ہوگئے۔ ان کی مدمقابل ڈیموکریٹس امیدوار کملا ہیرس کو538الیکٹورل ووٹوں میں سے223ووٹ ملے جبکہ ٹرمپ نے294الیکٹورل اور7کروڑ پاپولر ووٹ حاصل کئے مقابلتاً کملا ہیرس کو ساڑھے 6کروڑ ووٹ ملے ۔ کانٹے دار مقابلے نے ٹرمپ کی دوسری بار وائس ہائوس میں واپسی کویقینی بنایا۔ حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں کہ ٹرمپ اپنے اولین متنازعہ دور کے بعد دوسری باری کیلئے صدارتی انتخابات ہار گئے تھے۔ امریکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ کوئی امیدوار (سابق صدر)دوسری مدت کے لئے انتخابات ہار جائے اور پھر چار سال بعد منعقد ہونے و الے انتخابات میں کامیابی حاصل کرلے۔ ٹرمپ نے صدارتی انتخابات جنگ نہیں امن اور ترقی کی نئی تاریخ رقم کرنے کے وعدوں پر جیتا۔ اپنی کامیابی کے فوراً بعد حامیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے امریکیوں، عرب امریکیوں مسلمان امریکیوں سمیت سب نے ووٹ دیئے۔ یہ امریکہ کی جیت ہے ہم تعمیروترقی کے نئے دور کی بنیاد رکھیں گے۔ ہمیں کسی کے امریکہ آنے پر اعتراض نہیں یہ ضروری ہے کہ جو آئے وہ قانونی طور پر امریکہ آئے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے ٹرمپ کی کامیابی کو امریکہ اسرائیل اتحاد کی شاندار تاریخ کے نئے دور کا آغاز قرار دیا۔ غالبا ان کے پیش نظر صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ کی اسرائیل کے لئے کھلی حمایت کے ساتھ اسرائیل کو ایران کے ایٹمی مراکز اور منفعت بخش منصوبوں (تیل کے ذخائر)کو نشانہ بنانے کا مشورہ بھی شامل ہے۔ کملا ہیرس کی ناکامی جہاں دوسری وجوہات ہیں وہیں ایک اہم وجہ ان کی جوبائیڈن کی جگہ متبادل امیدوار کے طور پر تاخیر سے نامزدگی ہے اور دوسری مہنگائی ہے ۔ الیکٹورل کالج کے538ووٹوں میں سے کامیابی کے لئے270ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے ٹرمپ 294 ووٹ لے کر کامیاب تو ہوگئے لیکن 315ووٹ حاصل کرنے کا خواب حقیقت کی صورت اختیار نہ کرسکا۔ ہر چار برس بعد نومبر میں ہو نے والے صدارتی انتخابات میں کامیاب امیدوار اس سے اگلے برس یعنی تقریباً دو ماہ بعد جنوری میں اپنے منصب کا حلف اٹھاتا ہے البتہ اس درمیانی عرصے میں وہ مختلف منصبوں پر تقرری کے لئے اپنے ساتھیوں کے انتخاب کو حتمی شکل دے لیتا ہے۔ ٹرمپ کی کامیابی کو امریکہ اورامریکہ سے باہر بعض حلقے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی شکست سے بھی تعبیر کررہے ہیںلیکن شاید حقیقت مختلف ہے۔ یہ تجزیہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی طویل المقاصد پالیسیوں اور حکمت عملی کو سمجھے بغیر محض جی بہلانے کا سامان ہی ہے۔ امریکی اسٹیبلمنٹ کے مفادات، حکمت عملی اورپالیسیاں وائٹ ہائوس کے نئے مکین کے گرد نہیں بلکہ امریکہ کے اجتماعی قومی مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔ وائٹ ہائوس میں ڈیموکریٹ صدر ہو یا ریپبلیکن اسٹیبلشمنٹ عالمی بالادستی کے اپنے کردار سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹتی۔ گو ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ نہیں امن، قومی تعمیر نو اور اجتماعیت کی بات کی ہے مگر آنیوالا وقت ہی بتائے گا کہ وہ ان باتوں پر کتنا عمل کرتے ہیں اور کیا وہ اپنے پچھلے دور کی طرح ایک بار پھر انتہا پسند امریکی شناخت کو بڑھاوا دیتے ہوئے ایسے قوانین متعارف کراتے ہیں جو دنیا کے بعض خطوں کے کچھ ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے کے دروازے بند کردے جیسا کہ ماضی میں ہوا تھا۔ انتخابی مہم کے وعدوں کا انہوں نے اپنی کامیابی کے بعد حامیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اعادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا سرحدوں کو سیل کرنا پڑے گا۔ امریکہ کوئی نئی جنگ شروع نہیں کرے گا میں جاری جنگوں کو ختم کروںگا۔ ٹیکسوں میں کمی کی جائے گی ہماری حکومت قرضوں کی ادائیگی کے لئے سہولتیں دے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر وزیراعظم میاں شہباز شریف نے مبارکباد کے پیغام میں کہا ہے کہ پاکستانی حکومت ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش مند ہے۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہم امید کرتے ہیں وہ جنگوں کو ختم کرانے کے اپنے وعدے کو پورا کریں گے۔ کملا ہیرس کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا جارہاہے کہ ریپبلیکن پارٹی کانگریس اور سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل کرلے گی۔ ادھر کملا ہیرس نے شکست تسلیم کرتے ہوئے ٹرمپ کو مبارکباد دی ہے۔ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد کرہ ارض پر بسنے والے لوگوں اور حکومتوں کو اب اس بات کا انتظار رہے گا کہ ٹرمپ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد انتخابی مہم کے وعدوں پر کس طرح عمل کرتے ہیں کیا وہ یوکرائن جنگ کے حوالے سے اپنے موقف پر قائم رہیں گے۔ چین سے معاشی سرد جنگ پر ان کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ فلسطین اور دوسرے مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کے حق خودارادیت اور آزادی کے لئے وہ کوئی عملی قدم اٹھائیں گے یا قابض ریاستوں کی سرپرستی جاری رکھیں گے؟۔