سابق وفاقی وزیر داخلہ اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم سے لاپتہ افراد کا مسئلہ جزوی طور پر حل ہوجائے گا۔ کیسے، کیا اس جزوی حل میں ایک بڑی تعداد یا کچھ کی گرفتاری قبول کرلی جائے گی؟ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اختیار نہ ہونے سے لاپتہ افراد کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ عجیب بات ہے ایک حکومت جو روزمرہ کے امور مملکت کی انجام دہی کے ساتھ معاشی اور خارجہ معاملات پر اہم فیصلے کررہی ہوتی ہے ایک خالصتا داخلی مسئلے اورقانون کی حاکمیت کے قیام کے معاملے میں بے بس ہوتی ہے۔ ایسا ہے تو پھر حکومت (وہ آج کی ہوں یا ماضی کی)یہ دعویٰ کیوں کرتی رہتی ہیں کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی جائے گی؟ امر مسلمہ یہ ہے کہ اس وقت سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب میں بھی لاپتہ افراد کا معاملہ ہر جگہ زیربحث ہے۔ حال ہی میں عمران خان کے ایک وکیل انتظار پنجوتھا کی بازیابی جس طرح عمل میں لائی گئی وہ فلاپ ڈرامہ کے سوا کچھ نہیں تھا۔یہ واحد مثال نہیں بلکہ اس طرح کے کئی ڈرامے ہو چکے ہیں اور متاثرین کو انصاف کی فراہمی اپنی جگہ ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے ذمہ داروں کا تعین ہی ابھی باقی ہے اس ضمن میں اہل اقتدار کو یہ امر بہرطور مدنظر رکھنا ہوگا کہ اس وقت ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کے عدم پتہ ہونے کے دعویدار ہیں لاپتہ افراد میں سب سے زیادہ تعداد بلوچستان کی ہے۔ سندھ دوسرے اور خیبر پختونخوا تیسرے نمبر پرہے ۔ پنجاب میں بھی پچھلے کچھ عرصہ سے چند افراد کے عدم پتہ ہوجانے کی دعویداری سامنے آرہی ہے۔ اندریں حالات ضرورت اس مر کی ہے کہ وفاقی حکومت اس مسئلہ کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ لاپتہ افراد میں سے اگر کوئی واقعی کسی مقدمے میں مطلوب ہے تو اس کا مقدمہ عدالت میں لے جایا جائے اور محض شک کی بنیاد پر اٹھائے گئے افراد کو رہا کیا جائے۔اور اس امر کو یقینی بنانے کی سعی کی جائے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔