اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بعض رہنما تواتر کے ساتھ یہ کہتے آرہے ہیں کہ ملک بند گلی میں پھنس چکا ہے، حکومت دستور کی حاکمیت اور اداروں کو حدود میں رکھنے کی بجائے شخصیات کو مضبوط بنارہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ماضی میں جب تحریک انصاف ملک پر حکمران تھی تو اس وقت کی اپوزیشن جو آج حکومت میں ہے، بھی روزانہ کی بنیاد پر ایسے ہی دعوے کیا کرتی تھی یہی نہیں بلکہ یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ جتنے قرضے 72 برسوں میں لئے گئے تحریک انصاف نے اپنے ساڑھے تین برس کے دور میں اس کے مساوی سے کچھ اوپر بیرونی قرضے لے لئے اور اپنے اقتدار کے آخری چند مہینوں میں آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے ملک کو معاشی بدحالی سے دوچار کیا۔ ہر دور کی اپوزیشن حکومت وقت کے خلاف مختلف حوالوں سے الزام تراشی کرتے ہوئے ملک بند گلی میں ہے کا راگ تو الاپتی ہے مگر جب اسی اپوزیشن کو اقتدار ملتا ہے تو ملک کو اس بند گلی سے نکالنے کی سعی نہیں کرتی۔ اس طور اس رائے کو تقویت ملتی ہے کہ الزاماتی سیاست اصل میں سیاسی طور پر زندہ رہنے کا حصہ ہوتی ہے ۔ بہرطور اس رائے کے باوجود یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ تحریک انصاف کو ایک صوبے خیبر پختونخوا میں مثالی حکومت کے قیام کا وعدہ پورا کرنے کے ساتھ وفاق اور باقی تین صوبوں میں ایک ایسی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے جو مخالفت برائے مخالفت کی بجائے سیاسی اقدار کی ترویج پر یقین رکھتی ہو۔ ہماری دانست میں یہ عجیب معاملہ ہے کہ پی ٹی آئی جس امریکہ اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہراتی، حقیقی آزادی کے بلندوبالا نعرے مارتی تھی آج اسی امریکہ سے امیدیں باندھے ہوئے ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے سوا کسی سے بھی بات چیت کو اپنی توہین قرار دیتی ہے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی پہلے اس دوہرے معیار سے نجات حاصل کرے تاکہ بات آگے بڑھ سکے۔