جنرل ضیاء الحق کے دور میں کھلی کچہریوں کا انعقاد بہت زیادہ ہوا کرتا ، اس وقت صوبہ کے ایک بڑے افسر سے مَیں نے پوچھا کہ آخر ان غیر ضروری سرگرمیوں کی بھلا کیا ضرورت ہے ؟ اُس نے جواب دیا کہ یہ محض تشہیر ہے اور عوامی تائید حاصل کرنے اور مسائل سے فوری توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے ۔ کسی زمانے میں حاکم بھیس بدل کر عوام اور شہر کا حال معلوم کیا کرتے ، دربار میں حاضری ہوتی اور پھر اجلاس عام کا انعقاد ہونے لگا ، جس کا ظاہری مقصد عوام کی شکایات سن کر ازالہ کرنا ہوتا مگر ان کی خواہش یہ ہوتی کہ لوگ واہ واہ کریں کہ ہم عوام کا درد رکھتے ہیں ۔ پہلے پہل جب صدر ، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ ان کھلی کچہریوں میں منصفی کرنے آتے تو تمام محکموں کے افسران کو ایک طرف بٹھا دیا جاتا جیسے وہ ملزم ہوں اور سامنے عوام ہوتی جن میں تماش بینوں اور عادی شکایت کنندگان کی تعداد زیادہ ہوتی ۔ کبھی کبھی کھلی کچہری میں ہی چند افسران کا کریا کرم کر دیا جاتا ۔ اگلے دن اخباروں میں سرخی لگتی کہ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نے فلاں فلاں افسران کو غفلت برتنے پر معطل کر دیا ہے ۔ پھر یہ حاکم لوگ اخباری حد تک عوام دوست مشہور ہو جاتے ۔ ذولفقار علی بھٹو جب وزیر اعظم تھے تو اُنہوں نے گجرات میں ایک کھلی کچہری منعقد کی ۔شامیانہ تلے اونچے سٹیج پر بھٹو صاحب براجمان ہوئے ، ایک طرف بیٹھے ہوئے افسران کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں ۔ کارروائی شروع ہوئی تو ایک بوڑھا شخص ہاتھ میں کاغذات کا بندل لیے کھڑا ہوا ۔ اُس نے ” جناب والا !! آپ قائد عوام اور فخر ایشیا ہیں ۔۔مگر آپ کی سلطنت کچھ بھی نہیں کیونکہ یہاں ایک بادشاہت اور بھی ہے اور وہ ہے واپڈا ۔۔جس کی کارستانیاں بیان کرتا ہوں ” ۔۔۔ اُن دنوں جنرل فضل رازق چیرمین واپڈا تھے ، بھٹو صاحب نے اُنہیں آواز دی۔ ۔ وہ اپنی کرسی سے اُٹھے اور بھٹو کی طرف متوجہ ہوئے بغیر اُس شخص سے مخاطب ہوئے ” بابا ۔۔ میری نوکری کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو ”۔ یہ سن کر تمام حاضرین اور بھٹو صاحب ہنسنے لگے اور ماحول خوشگوار ہو گیا۔ پنجاب میں خاص کر اور دیگر صوبوں میں ضلعی سطح پر انتظامیہ کے افسران ، پابندی کے ساتھ ان کچہریوں میں منصفی کا کام سرانجام دیتے۔ پنجاب کے کسی گاؤں ، بستی اور تحصیل ہیڈکوارٹر میں جس دن کھُلی کچہری منعقدہوتی ، وہاں ایک میلہ سا سماں ہوتا۔ تھانہ اور پٹوار خانہ کے علاوہ زمینداروں کے توسط سے سجائے گئے پنڈال کے آس پاس مخصوص دیہی ثقافتی مظاہر کچہری کی رونق بڑھا رہے ہوتے۔ جا بجا اشیائے خورد و نوش کے چھوٹے چھوٹے کھوکھے، ایک کونے میں کھڑے رنگدار کپڑوں سے ڈھکے ہوئے اونٹ اور بیل ، ڈھول کی تھاپ پر کہیں گھوڑے ناچ رہے ہوتے تو کہیں چند خستہ حال دیہاتی رقص کرتے ہوئے دِکھائی دیتے ۔ افسر شاہی شان و شوکت سے جلوہ گر ہوتی اور منصف بڑی رعونت کے ساتھ اپنے سامنے موجود بے یار و مدد گار لوگوں کی شکایات رفع کرنے بیٹھ جاتا۔ یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوتا کہ کسی کو بھی محکمہ پولیس ، محکمہ مال اور مقامی عدالتوں سے شکایت نہ ہوتی ۔ لوگوں کو خرابی صرف سکول کے اُستاد ، ہسپتال کے ڈاکٹر و ڈسپنسر، محکمہ انہار و تعمیرات کے انجنیئراور دیگر مفادِ عامہ کے شعبوں میں نظر آتی ۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک سرکاری افسر جب کسی کا مسّلہ دفتر میں حل نہیں کر سکتاتو ان دو تین گھنٹوں کے ہُلڑ میں قانون قاعدہ کی جانچ کیے بغیر وہ راست قدم کیسے اُٹھا سکتا ہے۔ اِن کچہریوں سے اُن لوگوں کو بھی موقع مل جاتا ہے جو کسی اہلکار پر جھوٹی شکایت یا تہمت دینے سے اُسے بر سرِ عام رُسوا کر سکتا ہے۔ اور ایسا تماشا ہوتا بھی رہا ہے۔ کئی مرتبہ دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی جب لوگ منصفی کرنے والے ڈپٹی کمشنر یا کمشنر کے خلاف شکایت کرنے لگتے کہ محکمہ مال اور پولیس نے رشوت اور ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ آج بھی اِن کھُلی کچہریوں کے انعقاد کو غیر ضروری سمجھتا ہوں لیکن اب تو الیکٹرانک میڈیا پر شکایات سننے کا رواج پڑ چکا ہے ۔ ماضی میں ایک وزیر اعظم ٹیلی ویژن پر براہ راست عوام کی شکایات سنتے ، اس کھلی کچہری میں اپنے نامزد کردہ نمائندے بڑے کار آمد ہوتے جو تعریف کے علاوہ ایسا سوال بھی کرتے کہ جواب میں وزیر اعظم اپنی پوری کار کردگی بیان کر دیتے ۔ اب مختلف محکموں کے ذمہ دار افسران بھی ہر ماہ ٹیلی فون پر لوگوں کی شکایات سننے بیٹھ جاتے ہیں ، تسلی تشفی اور وعدہ فردا پہ ٹال دیتے ہیں ۔ اگر دفاتر کے دروازے ہمہ وقت کسی سائل کے لیے کھلے ہوں ، افسران موجود ہوں اور معمول سے ہر کام کر دیا جائے تو کسی کھلی کچہری یا الیکٹرانک میڈیا کے استعمال کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔ جب تگڑی سفارش اور مٹھی گرم کیے بغیر کام ہونے لگیں تو پھر کیسی شکایت اور کیوںکسی کا خوف دل میں پیدا ہو ۔ دفتر کے ایک بابو سے لے کر بڑے افسر کا کمرہ اصل میں کھلی کچہری کا پنڈال ہونا چائیے کہ جہاں کوئی بھی کسی وقت اپنا جائز مسّلہ لے کر جائے تو اسے حل کرنے میں کوئی پریشانی آڑے نہ آئے ۔ یوں لوگوں کا اداروں پہ اعتماد قائم رہے گا اور پھر کوئی کھلی کچہری کسی تشہیر کا ذریعہ نہیں بنے گی ۔