ٹرمپ !!!گورباچوف یا کینیڈی؟

ڈونلڈ ٹرمپ ایک جانگسل جدوجہد کے بعد دوسری بار امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے ہیں ۔ٹرمپ کا یہ سفر آخری مرحلے میں سیاسی جدوجہد اور مزاحمت تک محدود نہیں رہا بلکہ دنیا کی طاقتور ترین اسٹیبشلمنٹ کے نشانے پر آنے اور ان کی طرف سے سرخ دائرے میں آنے کی وجہ سے ٹرمپ کی واپسی کا سفر خونیں اور اعصاب شکن ہو کر رہ گیا تھا ۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لئے ٹرمپ ایک غیر نصابی کردار بن کر رہ گیا تھا ۔اس کی بہت سی وجوہات میں ٹرمپ کا بیرونی دنیا میں امریکہ کی جنگوں میں شرکت کی مستقل پالیسی کی مخالفت تھا ۔امریکہ جیسے ملک میں جہاں بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کا سارا دھندہ ہی جنگ پر چلتا ہے ٹرمپ کی یہ سوچ آگ سے کھیلنے کے مترادف تھی۔ایک ذہین اور تجربہ کارکاروباری کی طرح ٹرمپ کو یہ احساس تھا جس عرصے میں امریکہ نے خلیج اور افغانستان کے محاذکھولے رکھے اسی دوران چین نے سرجھکا کر معاشی عروج حاصل کیا اور وہ تجارت کی دنیا میں امریکہ کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آگیا ۔دنیا کی ہر ڈیپ سٹیٹ کی طرح امریکی مقتدرہ کو بھی جنگوں کی لت پڑچکی تھی اور اس لئے وہ ٹرمپ کی جنگ مخالف سوچ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوئی ۔یوں ٹرمپ دوسری بار انتخابات ہار گئے مگر ٹرمپ نے اس شکست کو قبول نہیں کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنا موقف امریکہ کی نئی نسل تک پہنچا نے میں کامیاب رہے تھے مگر انہیں ہیر پھیر کے ذریعے شکست سے دوچار کر دیا گیا ۔اسی ردعمل میں کیپٹل ہل کا پرتشدد واقعہ رونما ہوا جو امریکہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا ۔یہ واقعہ ٹرمپ کے نٹ بولٹ کسنے کے لئے ایک بہانے اور جواز کے طور پر استعمال ہوا ۔ٹرمپ کو جس انداز سے وائٹ ہاوس سے نکال باہر کیا گیا اس میں ایک تکبر انانیت اور تضحیک کا پہلو نمایاں تھا ۔صاف لگ رہا تھا کہ ڈیپ سٹیٹ نے ٹرمپ کو نفرت کی حد تک ناپسندکرنے کا راستہ چنا ہے ۔ٹرمپ اور ان کی بیوی کی کردار کشی کے لئے امریکی سرمایہ کاروں نے میڈیا کا بے دریغ استعمال کیا ۔ان کو وائٹ ہائوس سے نکالے جانے پر ایک مزاحیہ وڈیو کو خصوصی شہرت ملی جس میں ٹرمپ اپنی شکست کو تسلیم نہ کرکے قوم سے خطاب کر رہے ہیں اور اچانک سیکورٹی کا عملہ آکر ان کو میز اور کرسی سمیت چلاتا ہوا دفتر سے باہر چھوڑ کر آتا ہے اور ٹرمپ چلتی ہوئی کرسی اور میز کے ساتھ تقریر کر رہے ہیں ۔یہ ٹرمپ بیتی پاکستانیوں کو اپنی اپنی اور دیکھی بھالی سی لگے تو یہ محض خیال آرائی اور نظر کا دھوکا ہو سکتا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کے سرمایہ داروں نے ٹرمپ کو امریکہ کے مستقبل کے سیاسی منظر سے غائب کرنے کے لئے میڈیا کو وقف کردیا ۔بیانیہ سازی کی صنعت کو فروغ دیا گیا اور اس میں ٹرمپ کی کردار کشی اور ان کی بیوی سے علیحدگی کی کہانیوں سمیت لاتعداد افسانے پھیلائے گے ۔اس ساری مہم کے باوجود ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی نہ لائی جا سکی ۔ٹرمپ کی مقبولیت اگر بڑھنے بھی نہ پائی مگر ان کا ووٹر اور حمایتی پروپیگنڈے کے طوفان سے ایک ذرہ متاثر نہ ہو ا ۔یہاں تک جوش وجذبے کا شکار ایک امریکی شہری نے امریکہ کے وسیع تر مفاد میں ٹرمپ پر گولیاں چلا کر کام تمام کرنے کا راستہ بھی چنا مگر گولی ٹرمپ کے کان کو چھو کر گزر گئی اور سخت جان ٹرمپ مُکا لہراتا ہواعوام کے درمیان کھڑا رہا ۔امریکہ کا سسٹم ٹرمپ کو رخصت کرکے سوتا رہا مگر امریکا کا نوجوان اور حامی طبقہ انہیں مائنس سے پلس کرکے کام پر جاتا رہا ۔یہاں تک ٹرمپ کو مائنس کرنا آسا ن نہیں رہا اور شاید سسٹم نے اس سے آگے حجاب ختم نہ کرنے میں ہی عافیت محسوس کی کیونکہ جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے ردعمل نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔امریکا دوبارہ اس انداز کے پرتشدد مظاہروں اور ردعمل کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا ۔جوبائیڈن ایک کمزور امریکی صدر تھے ۔جنہیں یہ خیال بھی نہ رہتا کہ ان کے ساتھ کھڑی خاتون ان کی بیوی نہیں نائب صدر کملا ہیرس ہیں مگر وہ اپنائیت کے ساتھ ان کا ہاتھ تھام کر چل پڑتے اور کملا ہیرس کھسیانی ہو کر ہاتھ پیچھے کھینچ لیتیں ۔بائیڈن جیسے کمزور صدر سے بھی امریکی اسٹیبشلمنٹ کی تشفی نہیں ہورہی تھی تو انہوں نے بائیڈن کو جو ابھی بھی مضحمل قویٰ اور ڈوبتی ہوئی یادداشت کے ساتھ ایک باری اور لگانے کے لئے تیار تھے نرم بغاوت کے ذریعے منظر سے غائب کر کے کملا ہیرس کی صورت میں ایک کمزور ترین کردار کو آگے کر دیا ۔اس تبدیلی میں امریکی مقتدرہ کی براہ راست حکمرانی کی خواہش واضح طور پر جھلکتی تھی مگر ٹرمپ واقعتا دنیا بھر میں اشارہ ابرو سے اتھل پتھل کرنے والی امریکی مقتدرہ کے لئے غیر نصابی کردار ثابت ہو رہے تھے کیونکہ وہ مائنس ہونے سے مسلسل انکاری تھی ۔آخر کار ٹرمپ نے امریکی رائے عامہ کی مدد سے مقتدرہ کی چالوں اور بیانیوں کو شکست دے کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی ۔یہاں سے ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک نیادور شروع ہو رہا ہے ۔پہلا سوال تو یہی ہے کہ امریکی مقتدرہ اپنے ہاتھوں معتوب اور مصلوب ٹرمپ کو کس حد تک سپیس فراہم کرے گی؟امریکی مقتدرہ نے چار سال کا عرصہ ٹرمپ کو امریکہ کا ”میخائل گورباچوف” ثابت کرنے میں صرف کیا ۔گویا کہ ایک ایسا کردار جس نے سوویت یونین کے انہدام کے عمل اور منزل کو بہت آسان بنادیا تھا ۔وہ ٹرمپ کو امریکہ کے
عالمی دبدبے اور طاقت کے لئے ایک شرِمجسم کے طور پر پیش کرتے رہے انہیں صدر پیوٹن کے دوست کے طور پر مشہورکرنے کے پیچھے بھی یہی سوچ کا رفرما تھی ۔دنیا کے ہر ملک میں اپنی پسند کا نقشہ پلک جھپکتے ہی تشکیل دینے والی امریکی مقتدرہ اپنے ملک میں پہلی بار سیاسی منظر تشکیل نہ دے سکی ۔ایسا سابق صدر کینیڈی کے وقت بھی ہوا تھا اور پھر صدر کینیڈی قتل ہوگئے تھے ۔ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ اور یوکرین کی جنگوں کو ختم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے مگر جنگیں شروع کرنے اور چاہنے والے آج بھی ان سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔روسی سلامتی کونسل کے ڈپٹی چیرمین ویمتری میدویدف جو اپنے متنازعہ بیانات کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں نے تو ممکنہ منظر نامے کو یوں بیان کیا ہے کہ اگر ٹرمپ نے جنگوں کو ختم کرنے پر اصرار کیا تو ان کا انجام صدر کینیڈی جیسا ہوسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک تھکا ہوا ٹرمپ ”میں ایک معاہدے کی پیشکش کروں گا اور میرے فلاں کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں” جیسے جملے بولنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے گااور وہ بھی اقتدار میں آکر تمام قوانین کی تعمیل پر مجبور ہوگا۔جبکہ اس کے برعکس رائے یہ ہے کہ ٹرمپ یوکرین کی جنگ کو روکنے میںکامیاب ہوجائے گا کیونکہ یوکرین کی جنگ ہی وہ گنگا جمنا تھی جس میں امریکی مقتدرہ غوطہ لگانے کی خواہش میں نہ صرف ٹرمپ سے نجات کے لئے کوششیں کرتی رہی بلکہ کئی اور ملکوں کو بھی سیاسی عدم استحکام کی دلدل میں دھکیل بیٹھی ۔امریکہ میں یوکرین کے سابق سفیر اولیگ چیمیجر نے بھی چند ہی روز قبل اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ٹرمپ کی جیت سنگین خطرات کا باعث بنے گی کیونکہ ٹرمپ نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ روس کو شکست دینے کے لئے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرے گا۔ٹرمپ اور اس کی ٹیم کو یقین ہے کہ روس جیت رہا ہے اس لئے وہ اس برمودہ تکون میں جھونکنے کے لئے امریکی وسائل کا استعمال نہیں کریں گے ۔یوں ٹرمپ کو جنگوں کے خاتمے کی کوشش کی صورت میں تنی ہوئی رسی کا سفر درپیش ہے ۔

مزید پڑھیں:  عوامی بہبود کے منصوبے