سردی کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان کے بڑے شہروںمیں فضائی آلودگی کی صورتحال ابتر ہوجاتی ہے اس وقت لاہور میںصورتحال ناگفتہ بہہ ہے جبکہ پشاور میں ٹریفک اور کچرا جلانے کے باعث فضائی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ لاہور ہائی کورٹ میں گزشتہ روز ہونے والی ایک سماعت کے دوران لاہور ہائیکورٹ نے اسموگ کی روک تھام کے لئے مارکیٹیں رات 8 بجے بند کرنے اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈائون کا حکم دے دیا۔ تمام نجی دفاتر میں 2دن کے لئے ورک فرام ہوم کا بھی حکم دیا گیاہے اسی طرح لاہور ہائیکورٹ نے ٹریفک پولیس کو دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں فوری بند کرنے کی ہدایت کی ہے دوسری جانب سموگ کے دوران پنجاب کے سکولوں میں تمام سرگرمیاں معطل ہیں پشاور میں بھی فضائی آلودگی کی صورتحال لاہور سے مختلف نہیں لاہور اور ملتان کے بعد پشاور ملک کا تیسرا فضائی آلودگی والا شہر بن گیا ہے پشاور میں پرانی گاڑیوں کے باعث فضائی آلودگی میں خاص طور پر اضافہ ہو رہا ہے۔صوبائی دارالحکومت پشاور میں صبح سویرے سکولوں کی چھوٹی بڑی گاڑیوں کے باعث گھر گھر گلی گلی محلہ محلہ گاڑیوں کے دھویں اور اڑتی گرد کی زد میں آتا ہے علاوہ ازیں بھی چلنے والی وینز اور گاڑیاں آبادی میں بلا ضرورت کھڑی ٹیکسیوں اور رکشوںکی بھرمار کے باعث بھی آلودگی پھیلتی ہے اس کے ساتھ ساتھ جہاں اتفاق سے عملہ صفائی جھاڑو لگانے آئے تو صفائی کی بجائے گرد و غبار اڑانے کے مظاہر توجہ طلب ہیں حالانکہ اگر جھاڑو لگاتے ہوئے پورا زور لگانے کی بجائے نفاست اور آہستگی سے جھاڑو دی جائے تو مقصود صفائی ہو سکے گی مگر ان کی تربیت نہیں ہوئی ہوتی ہے اور افسران دفاتر میں لاتعلق بیٹھے ہوتے ہیں ماحولیات کا تو محکمہ خیبر پختونخوا میں وجود رکھتا بھی ہے یا نہیں اس بارے حکومت ہی کو معلوم ہوگا آلودگی پھیلانے اور فضا کو آلودہ کرنے میں ہماری شہری آبادی کا بھی پورا حصہ ہوتا ہے کچرا پھیلانے سے لے کر کچرا جلانے تک کے عمل میں شہری بھی برابر کے حصہ دار ہیں اور وہ خود اپنی گلیوں اور محلوں کو صفا رکھنے میں ذمہ دارانہ کردار کی ادائیگی پر آمادہ ہی نہیں سرکاری اقدامات کا تو تذکرہ نہ ہی بہتر ہو گا ایسے میں جلد ہی صوبائی دارالحکومت کا لاہور کا نمونہ پیش کرنا تعجب کی بات نہ ہو گی اس وقت بھی پشاور کی فضا سانس لینے کے قابل نہیں اور شہر کے مرکزی علاقوں میں تو ہوا کی آلودگی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے جس کے باعث لوگوں کو سانس گلے اور پھیپھڑوں کے متاثر ہونے کے عوارض کا سامنا ہے ۔اس صورتحال سے زیادہ دیر تک لاتعلقی اختیار نہیں کی جا سکتی فضائی آلودگی صرف عام اور متوسط افراد ہی کے لئے خاص مسئلہ نہیں ا ن کے علاقوں کی صورت حال سنگین ضرور ہوسکتی ہے لیکن من حیث المجموع اس سے صوبائی دارالحکومت اور علاقے کا متاثر ہونا فطری امر ہوگا اور دیکھا جائے تو خطرے کی گھنٹی کب کی بج چکی ہے مگر ہمیں سنائی نہیں دیتی۔ موسمیاتی کارکنوں نے طویل عرصے سے اس طرح کے نتائج کے بارے میں خبردار کیا تھا جب وہ غیر منظم صنعت کاری اور شہری کاری، بے دریغ استعمال کے کلچر، اور ہمارے حکام کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کے آب و ہوا کے اثرات کے حوالے سے عدم توجہی کے خلاف خبردار کر رہے تھے۔مگر اس پر کان نہ دھرا گیا اور آج صوبہ اب اپنے ہی زہریلے دھوئیں سے دم گھٹ رہا ہے، سانس لینے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ پاکستان ایئر کوالٹی انیشیٹو کے مطابق، پی ایم 2.5آلودگی، جو صحت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے2023کے مقابلے میں 2024میں25فیصد زیادہ ہے۔ عام آلودگی کی سطح میں بھی23فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین پہلے ہی انتظامیہ کی طرف سے کیے گئے بینڈ ایڈ کے اقدامات کو ختم کر چکے ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ ”گرین لاک ڈائون”اور ”موسمیاتی آفت”کا اعلان کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لئے اسے ڈرائنگ بورڈ پر واپس آناچاہئے اور اس سال کے سیکھنے کو آگے کی منصوبہ بندی کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ اس کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ بھاری آلودگی پھیلانے والوں، خاص طور پر ذاتی گاڑیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے سخت کنٹرول کو نافذ کیا جائے۔ اس کے بجائے، پبلک ٹرانسپورٹ کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے اور موجودہ سہولیات کو وسعت دی جانی چاہئے تاکہ لوگوں کو ایسے اختیارات تک رسائی حاصل ہو جو ماحولیاتی نقصان کا باعث نہ ہوں۔ اسی طرح، بھاری ٹریفک اور زیادہ اخراج والی صنعتوں کو جلد از جلد آبادی کے مراکز سے دور کیا جانا چاہئے۔صرف وزیر اعلیٰ ہی کو نہیں وزیراعظم کو بھی اس مسئلے کا نوٹس لینا چاہیے۔ موسمیاتی بحران صرف صوبائی نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے۔