اعتراف ناکامی؟

گورنر خیبر پختونخوا، وزیر اعلیٰ اور بعض صوبائی وزراء اور آئی جی سمیت دیگر اہم شخصیات کے آبائی علاقے جنوبی اضلاع اور ضم قبائلی اضلاع میں ایک عرصے سے امن وامان کی صورتحال کی کیفیت ناگفتہ بہہ چلی آرہی ہے اور حکومتی اقدامات کی جو صورتحال ہے اس سے اس خدشے کا اظہار بے جا نہ ہو گا کہ خدانخواستہ یہ علاقے ایک مرتبہ پھرحکومتی عملداری سے باہر ہوسکتے ہیں جہاں اس وقت بھی صورتحال قابو میں نہیں تازہ صورتحال سے عسکریت پسندوں کی واپسی کی صورتحال کاشبہ ہوتا ہے حکام کے پاس انسدادی اور مسکت اقدامات کی بجائے خبردار کرنے ہی کی ذمہ داری رہ گئی ہے۔ محکمہ اعلی تعلیم خیبر پختونخوا کو محکمہ داخلہ کی جانب سے موصول مراسلے کے مطابق جنوبی وزیر ستان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں تعلیمی اداروں کو خطرات ہیں اور انہیں دہشتگردوں کی جانب سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے مرد وں اور خواتین کے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی یقینی بنانے کی ضرورت ہے محکمہ داخلہ کے خط کی روشنی میں23کالجز کے پرنسپلز کو احکامات جاری کئے گئے ہیں مراسلے میں محکمہ اعلی تعلیم نے ہدایت کی گئی ہے کہ سکیورٹی کے بہترین انتظامیہ کئے جائیں سکولوں کے پرنسپل ضلعی انتظامیہ کیساتھ رابطہ میں رہیں اور ادارے کیساتھ ساتھ طلبہ اور اساتذہ کی سکیورٹی بھی یقینی بنائیں محکمہ اعلی تعلیم نے پرنسپل کو کہا ہے کہ اضافی سکیورٹی کی ضرورت محسوس ہونے پر ڈائریکٹوریٹ کی مدد بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔یہ مراسلہ میراثی کے بیٹے کو فورس میں بھرتی کرنے آمد پر میراثی کے جواب کامصداق عمل ہے اگر سکول پرنسپلز ہی نے سیکورٹی کی ذمہ داری بھی نبھانا ہے تو پھر پویس کو اسلحہ رکھ دینا چاہئے محکمہ داخلہ کی جانب ے ان کو آگاہی و احتیاط کا مراسلہ بھی رازدارانہ انداز میں جاری کرناچاہئے تھی اس کی تشہیر اور ببانگ دہل ا علان کی ضرورت نہ تھی تعلیمی ادارے چلانے والوں سے اچھی تدریس اور تربیت کی توقع وابستہ کی جا سکتی ہے اور اس میں کوتاہی پران پر تنقید وسرزنش ہوسکتی ہے لیکن ان کی تربیت اسلحہ اٹھانے اور دہشت گردوں سے بچنے کی نہیں اور نہ ہی یہ ان کی ذمہ داری ہے یہ ذمہ داری محکمہ داخلہ اور اس کے ذیلی اداروں کی ہے جن کو تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو مراسلہ ارسال کرنے کی بجائے جملہ تعلیمی اداروں کی عمارتوں اور راستوں پر تعلیمی اوقات میں بطور خاص اور علاوہ ازیں عمومی طور پر نگرانی کا نظام سخت کرنا چاہئے تھا مگر بجائے اس کے یہاں تو بنکوں کی برانچوں کی بندش اور عدلیہ و سرکاری دفاتر کی منتقلی کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے جس کا بالواسطہ مطلب عسکریت پسندوں کے نفوذ کو تسلیم کرنے کا ہے اور ان کے لئے علاقہ خالی کرنے کا ہے جن جن علاقوں اور جن جن تعلیمی اداروں کا نام لے کر مراسلہ جاری کر دیاگیا ہے یہ اس کے سربراہان زیادہ سے زیادہ کیا حفاظتی اقدامات کرسکیں گے جو ممکنہ انتظامات ہوسکتے ہوں گے وہ پہلے ہی اختیار کئے جا چکے ہوں گے جن میں حالات کی بہتری پر اگر نرمی لائی گئی ہو گی اسے دوبارہ اختیار کرنا ہی ان کے بس میں ہوگاباقی کے انتظامات محکمہ داخلہ اور اس کے اداروں کی ذمہ داری ہے جس میں اگر تساہل سے کام لیاگیا تو خدانخواستہ تعلیمی اداروں کی بندش کی صورت میں طلبہ اور والدین کے نئی مشکل سے دو چار ہونے کا خطرہ ہے جو کسی مسئلے کاحل نہیں بلکہ از خود ایک پریشان کن صورتحال ہو گی جس سے بچنے کا تقاضا فوری اور ہنگامی اقدامات ہیں جس میں تاخیر کی گنجائش نہیں۔

مزید پڑھیں:  کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے