امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا موسم پاکستان میںکچھ بااثر سیاسی ٹویٹر صارفین کے لئے خزاں بن کر جلوہ گر ہوا۔جنہیں اپنے پرانے ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا پڑ رہے ہیں مگر ان کا المیہ یہ ہے کہ ٹویٹر کا مالک ایلون مسک جو انتخابی مہم میں ٹرمپ کا دست راست تھا ان ٹویٹس کا ریکارڈ رکھتا تھا۔پاکستان میں پہلی بار کچھ سیاسی جماعتوں نے ٹرمپ کی رخصتی کو خواہ مخواہ اپنا مسئلہ بنایا اور آج یہی بات ان کے لئے پریشانی اور ہیجان کا باعث بن کر رہ گئی ہے۔پی ڈی ایم کی جماعتوں نے بات بے بات ٹرمپ کی رخصتی کے حوالے دے کر اپنی سیاست کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ۔ٹویٹس کی اس دنیا میں احسن اقبال کا ٹویٹ کفن پھاڑ کر اب بھی بولتا ہے جس میں انہوں نے ٹرمپ کی رخصتی پر مسرت کا اظہا کر کے یہ نوید سنائی تھی کہ ایسا ہی کردار پاکستان میں بھی اپنے انجام کو پہنچے گا۔حیرت انگیز طور پر امریکی سفارت خانے نے عین اس کو ری ٹویٹ کرکے دونوں باتوں کی تائید کی تھی ۔اس کا مطلب ہے کہ ٹرمپ کی رخصتی سے بہت پہلے امریکی اسٹیلشمنٹ نے خود اپنے ہی ملک میں رجیم چینج کا ذہن بنا رکھا تھا کیونکہ امریکی سفارت خانے کے اہلکاروںکا ٹرمپ کی رخصتی کے مسرت بھرے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنا معمولی بات نہیں تھا ۔اب ٹرمپ مخالف یہی ٹویٹس موجودہ حکمران کلاس کے گلے پڑ رہے ہیں۔امریکہ کے اندرونی معاملات پر ان غیر ضروری تبصروں کی اصل وجہ یہ تھی کہ امریکی مقتدر ہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ناپسند کرنا شروع کر دیا تھا ۔مقتدرہ کو چین اور روس کے خلاف جنگی محاذ کھولنے کی جلدی تھی اور انہیں اس راہ میں کوئی رکاوٹ اور حرف انکار پسند نہیں تھا ۔ٹرمپ امریکہ کے عالمی سٹریٹجک کردار کے پر پرزے سمیٹ کر اسے واپس اپنے جامے میں لانے اور جنگوں کی بجائے کاروباری مسابقت کی طرف جا رہے تھے ۔ڈیموکریٹس اس معاملے میں سینٹ کام کے آگے خود سپردگی اختیار کرچکے تھے ۔مقتدرہ اور ڈیموکریٹس کا مفاد اورمقاصد ایک ہو کر رہ گئے تھے ۔یہیں سے پاکستان کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے یہ حقیقت پالی تھی کہ اب امریکا میں عوامی سیاست کا دورگزر گیا اور اب اس ملک پر کانگریس سینیٹ اور صدر کے پردے میں مستقل طور پر مقتدرہ کی حکمرانی قائم ہو گئی ہے ۔چونکہ مقتدرہ کے لئے ٹرمپ بیرونی دائرے کا غیر نصابی کردار تھا جس سے کسی بھی وقت کسی بھی بات اور قدم کی توقع کی جا سکتی تھی اس لئے مقتدرہ نے ہر قیمت پر مائنس ٹرمپ ذہن بنالیا تھا ۔مائنس ٹرمپ کی اس کوشش اور خواہش میں یہ رکاوٹ تھی کہ ٹرمپ کے ساتھ ذاتی طور پر عوام کا ایک حلقہ جڑ گیا تھا اور عوام میں اس کی ساکھ کو خراب کرنے کے لئے مختلف انداز سے بیانیہ سازی کی جانے لگی تھی ۔مقتدرہ کی ٹرمپ سے اس نفرت کو بھانپتے ہوئے پاکستانی سیاست دانوں نے بھی ٹرمپ مخالف کشتی میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ۔ان کا خیال تھا کہ امریکہ میں عوامی سیاست اور ووٹ کے ذریعے حقیقی تبدیلی کا کھیل اب ختم ہوگیا ہے ۔یہ اندازے کی ایک غلطی ثابت ہوئی ۔خود امریکی مقتدرہ بھی اپنے بھرپو روسائل کے استعمال کے باجود اس غلطی کا شکار ہوئی ۔ٹرمپ کی دلیری اور مائنس نہ ہونے سے انکار کی روش نے انہیں الگور کے انجام سے دوچار ہونے سے بچالیا ۔وہ اپنی مقتدرہ کی چالوں کے مقابل جم کر کھڑے ہوگئے اور یوں مقتدرہ کی ہر تدبیر ناکام ہوتی چلی گئی۔پاکستان کی سیاسی شخصیات بھی اس بات پر ایمان لے آئی تھیں کہ اب امریکہ میں اندرونی طورپر مقتدرہ ہی حکومت بنائے گی بلکہ باہر کی دنیا میں اقتدار کی تقسیم کا فیصلہ امریکی مقتدرہ ہی کر ے گی ۔اس مغالطے میں ان جماعتوں نے اپنا سارا سیاسی ورثہ ،تاریخ عوامی حمایت ،مقبولیت اور ساکھ خود اپنی مقتدرہ کے حوالے کر دی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی عوام میں مقبولیت اور قبولیت پانی میں نمک کی مانند تحلیل ہوتی چلی گئی ۔اُدھر عمران خان نے طاقت کے آگے سپر ڈالنے کی بجائے مائنس ہونے سے انکار کر دیا جس سے ان کی عوامی مقبولیت کا گراف بڑھتا چلا گیا ۔طاقت کے ہاتھی اور مقبولیت کے اینا کونڈا کے درمیان لڑائی کا ایک دلچسپ کھیل شروع ہوگیا ۔طاقت کے ہاتھی نے مقبولیت کے اینا کونڈا کو ہر طرح سے دبانے اورمسلنے کی کوشش کی اورجواب میں اینا کونڈا نے طاقت کے ہاتھی کے گرد ایک عالمی گھیر ا ڈال دیا ۔کراچی ،پنجاب اور خیبر پختون خوا سے ہوتی ہوئی بات امریکہ اور برطانیہ جیسے طاقت کے مراکز تک پھیل گئی ۔جہاں جہاں پاکستانی موجود تھے وہ دوسری انتہا پر جا کھڑے ہوئے اور اس سے مقبولیت کے اینا کونڈا کا جال مزید مضبوط اور موثر ہوتا چلا گیا ۔ملک کے اندر مقبولیت نے ہر مخالف بیانیہ غیر موثر بنادیا تو باہر کی مقبولیت ایک نیا درد سر بن کر رہ گئی ۔اس کا ایک فیصلہ کن معرکہ آٹھ فروری کو ہوا جب عوام رسیاں تڑوا کر آلووں بینگنوں ٹماٹروں اور جوتوں کو ووٹ دینے نکل کھڑے ہوئے ۔اس عوامی لہر اور فیصلے کو روکنے کے لئے نیم شب کو جو کچھ ہوا وہ فارم سینتالیس کے فاول پلے کے طورپر تاریخ میں رقم ہو گیا ہے۔کل تک سب کویقین تھا کہ امریکی مقتدرہ طاقت کے کھیل میں جیت جائے گی اور ٹرمپ کودوبارہ واپس نہیں آنے دیا جائے گا ۔یہی وہ مغالطہ تھا جو امریکہ کے افغانستان پر حملے وہاں مدت تک براجمان رہنے اور پھر نکلنے کے حوالے سے بھی رہا تھا ۔جنرل مشرف اس مغالطے کا شکار رہے ۔ان کے مطابق امریکہ افغانستان میں کبھی شکست نہیں کھائے گا کیونکہ اس کے پاس دنیا کی خطرناک ترین ٹیکنالوجی اور مشینری ہے مگر پھر چشم فلک نہ یہ ہوتا دیکھا۔اسی طرح پی ڈی ایم کے لوگوں کا خیال تھا کہ ٹرمپ امریکہ میں مقتدرہ کی طاقت کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو ں گے مگر وقت نے اس تاثر اوریقین کو غلط ثابت کیا اور حیرت انگیز طور پرٹرمپ اپنی مقتدرہ کو شکست دے کر واپس آگئے ہیں ۔حالانکہ سیاست میں اُتار چڑھائو آتے رہتے ہیں اور کوئی بھی انتھک سیاست دان عوامی طاقت یا ڈیل کی مدد سے کسی بھی وقت پانسہ پلٹ کر واپس آسکتا ہے ۔اندازے کی یہی غلطی اب پاکستان کی سیاسی شخصیات کی گلے کی پھانس بن گئی ہے اور انہیں پرانے ٹویٹس ڈیلیٹ کرنے کا ناخوش گوار فریضہ انجام دینا پڑ رہا ہے۔ کوئی ان پاکستانی سیاست دانوں سے پوچھے کہ امریکہ کے مقبول لیڈر ٹرمپ اور امریکہ کی عالمی طاقت کے مرکز” سینٹ کام”یا ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کی جنگ میں عبداللہ دیوانہ بن کر کودنے اور دھمالیںڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ بصیرت سے محرومی کے نتیجے میں لمحۂ موجود کے جھولے میں جھولتے چلے جانے کو ہی دنیاکی سب سے بڑی حقیقت سمجھ کر فیصلے کرنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔