سیاسی احتجاج اور غلط بیانیہ

پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کیلئے ان کی پارٹی گزشتہ کئی ماہ سے احتجاجی کال دیکر جلسوں اور جلسوں کے ذریعے نہ صرف دارالحکومت اسلام آباد، جڑواں شہر راولپنڈی بلکہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور پر ” یلغار” کرتے ہوئے کئی بار حملوں میں صوبائی ملازمین کو بھی استعمال کر کے انہیں پنجاب میں گرفتار کروا کے بعد میں مختلف طریقوں سے رہائی دلوانے یعنی ضمانت منظور کروانے میں کامیاب ہو چکی ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی حوصلہ افزائی کیلئے نہ صرف ان کو ” انعامی” رقوم اور ملازمتوں میں ایک ایک درجہ ترکی کے پروانے جاری کر کے ملکی سیاسی معاملات میں ایک نئے طرز کو ایجاد کر کے آئین وہ قانون کی دھجیاں بکھیر چکی ہے، اس حوالے سے تازہ ترین اقدام کے طور پر گزشتہ روز صوابی انٹرچینج کے مقام پر ریسٹ ہاؤس میں پی ٹی آئی کے ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے بانی چیئرمین کی رہائی کیلئے فائنل کال کے بارے میں بقول ان کے اعلان کو پارٹی چیئرمین کی جانب سے آئندہ چند روز میں سامنے آنے کے بعد پارٹی ورکروں کو سفید چادر(بطور کفن) ساتھ لا کر آخری نتائج تک ڈٹے رہنے کی بات کی ہے، اصولی طور پر احتجاج( اگر وہ آئین و قانون کے دائرے میں ہو ) ہر کسی کا بنیادی حق ہے مگر پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے احتجاج کے حوالے سے جو رویہ اختیار کیا ہے ہماری دانست میں وہ درست اور مناسب کے زمرے میں نہیں آتا۔ کل تک ایبسالوٹلی ناٹ اور امریکہ نے سازش کے تحت ہماری حکومت گرائی ہے کہ بیانیوں کو آگے لیکر چلنے والی جماعت کا اچانک ” پلٹ کر” امریکہ کے پرچم کو اپنے احتجاجی جلسے میں لہرانا بلکہ بعض ورکروںکی مبینہ طور پر امریکی پرچم کو چومنے کی حرکتیں ملکی سیاست میں امریکی مداخلت کو دعوت دینے کے مترادف ہیں جو پارٹی کے دوغلے پن کو ظاہر کرتی ہے، اس طرح قانون کے تحت مختلف مقدمات میں ” سزا یافتہ” کسی شخص کوطاقت کے بل پر احتجاج کے ذریعے رہا کروانا دنیا کے کسی بھی خطے میں قابل قبول نہیں سمجھا جاتا ،بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ پارٹی قائدین اپنے بانی چیئرمین کی رہائی کیلئے آئین اور قانون کے تحت عدالتوں کے ذریعے کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے انہیں باعزت طور پر جیل کی سلاخوں سے باہر لانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ دنیا میں ان کی ساکھ کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور وہ رہائی کے بعد زیادہ بھرپور انداز میں ملکی سیاست میں سرگرم ہو کر اقتدار کے حصول کی کوششیں کریں۔

مزید پڑھیں:  اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے