ڈونلڈ ٹرمپ ، ایک تجارتی و کاروباری پس منظر رکھنے والے سفید فام امریکی شہری امریکی صدارتی انتخاب 2024 میں ری پبلیکن پارٹی کے ٹکٹ پر326ووٹ لیکر دوسری بار امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے ہیںـوہ صدارتی لسٹ میں امریکہ کے 45 ویں اور 47 ویں صدر کہلائیں گے انہوں نے امریکی تاریخ کے ایک انتہائی شدید کانٹے دارصدارتی انتخابی مقابلے کے بعد ہندوستانی نژاد ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کیملہ ہیرس کو شکست دی جنہوں نے 226 صدارتی ووٹ حاصل کئے۔نو منتخب صدر ٹرمپ کے ہمراہ ان کے نائب صدر کے امیدوار جے ڈی وینس بھی منتخب ہوئے ہیں جن کی شریک حیات اْوشا وینس ہندوستانی نژاد ہیں۔نو منتخب صدر ٹرمپ کو 50 اعشاریہ 5فیصد اور ان کی غیر سفید فام مخالف کیملہ ہیرس کو 48 فیصد ووٹ پڑے۔مشیگن، مائنوسوٹا ، وسکانسن ، پنسلوانیا اور جارجیا میں موجود مسلمان اور پاکستانی ووٹ نے جو کہ تعداد کے لحاظ سے کافی اہمیت رکھتا ہے صدر ٹرمپ کی کامیابی میں قابل ذکر کردار ادا کیا۔ مسلمان ووٹر اگرچہ روایتی طور پر ڈیمو کریٹ پارٹی کا حصہ رہا ہے لیکن 2024 کے حالیہ صدارتی انتخاب میں مسلمان ووٹر کا جھکاؤ ریپبلیکن پارٹی کی جانب ہو جانے کی وجہ غزہ اور لبنان میں مسلمانوں پر کئے جانیوالے اسرائیلی مظالم ہیں جن کی حمایت صدر بائیڈن اور ان کی شکست خوردہ صدارت کی امیدوار کملہ ہیرس کر رہی تھیں۔نو منتخب صدر ٹرمپ کی دوبارہ کامیابی کے پس منظر میں اس وقت تمام دنیا سے تجزئیے اور پیش گوئیاں آرہی ہیں اور ان میں سے بیشتر کا تعلق یوکرین کی جنگ اور اس سے جڑے معاہدہ نیٹو کا مستقبل، چین روس اور امریکہ تعلقات ،جنوبی ایشیا میں ہندوستان ، پاکستان اور امریکہ تعلقات اورمرکزی و مغربی ایشیا میں افغانستان ، ایران اور اس وقت جاری اسرائیل فلسطین جنگ سے ہے۔یورپ میں جاری یوکرین جنگ اور نیٹو امریکہ تعلقات کے ضمن میں صدر ٹرمپ کا ایک بیان بہت زیادہ مستند حوالہ بن گیا ہے کہ وہ اس جنگ کو بند کرانا چاہتے ہیں۔ ایسا کیسے ہوگا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ نیٹو کا اتحاد یوکرین بمخالف روس جنگ میں ہر صورت یوکرین کی فوجی ، اخلاقی اور سیاسی مدد جاری رکھنے کے حق میں ہے جبکہ نو منتخب امریکی صدر اپنی الیکشن مہم میں اس جنگ کو بند کرانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ نیٹو یوکرین جنگ کیلئے 125 ملین امریکی ڈالرز کی امداددے چکا ہے جبکہ صرف تنہا امریکہ اس جنگ میں یوکرین کو 90 ملین امریکن ڈالر کی امداد دے رہا ہے۔ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب نے یورپ میں موجود امریکی اتحادیوں کیلئے نہایت مشکل صورتحال پیدا کر دی ہے آنیوالے چند دنوں میں اس پر ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے کوئی باقاعدہ بیان آئیگا۔ ابھی صرف یہی بات سامنے آئی ہے کہ امریکی نو منتخب صدر روس اور چین پر سیاسی دباؤ بڑھا کر اس جنگ کو سمیٹنا چاہتے ہیں لیکن اس کا میکینزم کیا ہوگا اس پر کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ امریکی تعلیمی و تحقیقی اور ابلاغ کے حلقوں سے یہ تاثر آرہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت میں ہندوستان امریکہ تعلقات پہلے سے بہتر ہوں گے اور ان کی ایک وجہ بھارت کی چین سے مخالفت بھی ہو سکتی ہے اور نو منتخب صدر کی چین سے پرانی مخاصمت بھی۔ اس کے برعکس پاکستان کے بارے میں کسی بھی سفارتی ، سیاسی یا فوجی تعلق کو چین کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔ممکن ہے کہ اس بار امریکہ سے پاکستان کا تجارت کا حجم زیادہ ہونے کے باوجود معاشی تعلقات زیادہ آگے نہ جا سکیں اور سماجی و انسانی حوالوں سے ملنے والی امریکی امداد میں بھی کمی آ جائے۔ جبکہ پاکستان پر دہشت گردی وغیر ریاستی تنظیموں کی معاونت وغیرہ کے بھارتی الزامات کو امریکی حمایت مل جانا قرین قیاس ہے۔ چین۔پاکستان قریبی تعلق کی وجہ سیآنے والے دنوں میں پاک امریکہ تعلقات میں کسی بڑی پیشرفت کا امکان کم ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے غزہ اور لبنان میں اسرائیلی جنگ اور خونریزی کو روکنے کیلئے ان کے انتخابی بیانات نے امریکی مسلمانوں کی سوچ کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا ان کیساتھ منتخب ہونیوالے نائب صدر جے ڈی ونس نے واضح طور پر کہا کہ صدر ٹرمپ نیتن یاہو کو جنگ بندی پر مجبور کر دیں گے۔ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے فلسطین کے قیام کیلئے آگے بڑھائے جانے والے دو ریاستی حل کو ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کتنی اہمیت دیگا کیونکہ یہ صدر ٹرمپ کا پہلا دور حکومت ہی تھا جب 2020 میں ابراہام معاہدات اور سعودی تائید سے قطر ، یو اے ای ، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کیساتھ قیام امن و سفارتی تعلقات کو بھی قائم کیا۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ مشرق وسطٰی میں امن کے قیام کیلئے ٹرمپ انتظامیہ کی ماضی کی طرح اب بھی سوچ دو ریاستی حل سے مختلف ہوگی اور وہ کسی ایسے حل کی طرف جائیگی جس میں غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کیساتھ ساتھ اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں میں اپنا قبضہ مستحکم کرنے میں سہولت ہو۔ ایسا ایک منصوبہ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے پہلے دور 2017 تا 2021 میں دیا تھا۔ نو منتخب صدر ٹرمپ ایک ناقابل فہم قدم اٹھانے والے شخص کے طور پر مشہور ہیں ان کی خارجہ پالیسی بھی کسی امریکی لگے بندے قائدے یا قانون کی پابند نہیں رہی ہے وہ اگر اس بار عام امریکی کا ووٹ لیکر آئے ہیں تو ان کی تارکین وطن مخالف سوچ، ان کا اوّل امریکہ کا نظریہ، ان کا کاروباری حلقوں میں اثرو رسوخ، ان کو ایک سفید فام تیزی کے ساتھ آبادی کے لحاظ سے غیر سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہوئی آبادی کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ ان کو امریکہ کا ایک عوامی سیاستدان خیال کیا جاتا ہے اور اس قبیل کے پاپولر لیڈران نے جو سوچ دنیا کے مختلف ملکوں میں دی ہے وہ یہی ہے کہ لیڈر اور اس کے پیچھے والے صرف سچے لوگ ہوتے ہیں باقی ساری چیزیں غلط ہوتی ہیں۔ پاپولر لیڈروں کی اس سوچ کی وجہ سے دنیا کے مختلف ملکوں میں سیاست کے اندر تشدد کا رنگ نمایاں ہوا ہے اور صدر ٹرمپ کے ماننے والوں نے بھی ابھی حال میں تشدد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا۔دوسری جانب سیاست کا سبق یہ ہے کہ حزب اقتدار اور حزب مخالف دونوں ایک جمہوری معاشرے میں دو ستونوں کے طور پر ہوتے ہیں۔اس لئے امریکی صدر ٹرمپ کو انتہائی غیر مستقل سوچ رکھنے والا حالات کیساتھ ایک پالیسی تبدیل کرنیوالا صدر خیال کیا جاتا ہے اور شخصیت کے اس پس منظر میں یہ ضروری نہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ویسا ہی ہو جائے۔ پاکستان کے حوالے سے بھی اندرونی سیاسی معاملے پر امریکی مداخلت کے بارے میں ابھی سے دفتر خارجہ کی ترجمان کا بیان آچکا ہے۔کیا ایک بڑی طاقت کا پاپولر صدر ایک معزول پاپولر سیاست دان کو کوئی سہارا دے گا؟ بظاہر تو ایسا نہیں لگتا لیکن صدر ٹرمپ کے مشرق وسطٰی و دنیا کے دیگر ملکوں میں سربراہان اور سیاستدانوں سے تعلقات کی کہانی یہی نتیجہ دے رہی ہے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔