شہر کی فضاء پر طاری سیاہی

پشاور میں موسم سرد ہونے اور ہوا میں خنکی بڑھنے سے فضائی آلودگی میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے نوبت اس کی آگئی ہے کہ پشاور میں سموگ کی صورتحال کنٹرول سے باہر ہوگئی ہے پشاور میں گزشتہ شام کئی گھنٹوں تک فضائی آلودگی 700پوائنٹ سے تجاوز کرگئی جو لاہور اور ملتان سے زیادہ ہے لاہور اور ملتان میں فضائی آلودگی کی شرح 500سے کم رہی ایئر انڈکس کوالٹی نے پشاور کی فضا کو سانس لینے کیلئے بدترین قراردے دیا ہے پیر کے دن کی صورتحال اس سے بھی بدتر رہی اور پشاور کی فضا کالی اور روشنی کی رکاوٹ کا باعثشدید دھند کی لپیٹ میں رہی سرکاری ذرائع کے مطابق سموگ کے حوالے سے صوبائی حکومت مختلف تجاویز پر غور کررہی ہے جس میں سموگ پر قابو پانے کی لئے تجارتی مراکز رات آٹھ بجے بند کرنے کی تجویز بھی شامل ہے جبکہ پشاور میں غیر قانونی اور دھواں چھوڑنے والے ہزاروں غیر قانونی رکشوں اور چنگ چی کیخلاف کارروائیاں بھی شامل ہیں ۔صوبائی دارالحکومت پشاور میں شہرائو کے عمل میں جس قدر شدت اور تیزی آتی گئی آبادی اور کاروباری عمل میں اضافہ ہوا کھیتوں ، باغات اور سبزہ کی جگہ کنکریٹ کے جنگل اور پہاڑ آباد ہوتے گئے زمین کم پڑ گئی تو عمودی عمارتوں کی تعداد بڑھی اور تیرہ منزلہ عمارتوں کی حد ختم کرکے کیثر المنزلہ عمارتیں بنانے کی کھلی اجازت ملی ٹرانسپورٹ کے نامناسب انتظامات کے باعث بھی ٹریفک پردبائو بڑھا اور ساتھ ہی ماحولیاتی اثرات سے بے نیاز اقدامات کی روک تھام ماحول کی صفائی اور آلودگی کے پھیلائو کے حوالے سے اقدامات تو درکنار شعور کا بھی مظاہرہ نہ ہوا تو اس کے اثرات گرمیوں میں فطری طور پر قدرتی قہرمانیوں کی صورت میں کہیں شہری سیلاب غیر معمولی بارشوں اور سردیوں میں شدید دھند اور کالے دھوئیں کی صورت میں شہر کو لپیٹ میں لے لیا سموگ کا مسئلہ سال بہ سال سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے مگر ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے اقدامات تو درکنار ابھی تک اسے سنگین اور سنجیدہ مسئلہ گرداننے کی بجائے وقتی اور سطحی سمجھ لیاگیا ہے پورے ملک کی یہی صورتحال ہے پنجاب حکومت لفاظی کی حد تک اس کی معترف ہے تو خیبر پختونخوا میں ماحولیات کا شعبہ اس قدر بے وقعت گردانا گیا کہ اسے ایک ایسے شخص کی نگرانی میں دی گئی جو آلودگی کے لفظی معنی سے بھی شاید واقف نہ تھے جسے ایک مضحکہ خیز انٹریو کے بعد ہٹا دیاگیااس وقت پشاور کے گرد و نواح میں جو چند ایک کارخانے چل رہے ہیں ان کارخانوں میں استعمال شدہ پا نی اور ہوا کی ممکنہ صفائی اور آلودگی پر قابوپانے کیلئے کسی قسم کے اقدامات نظر نہیں آتے ایک کارخانے یں بڑے پیمانے پر آگ لگی تو نہ صرف پورے شہر کی فضاء سیاہ رنگ ہو گئی بلکہ ہفتہ بھر آگ پر قابو پانے میں لگنے سے آگ بجھانے کے انتظامات کا بھی پول کھل گیا اس وقت جبکہ صورتحال سنگین سے سنگین تر ہے مگر اسکے باوجودماحولیاتی تحفظ کے ابتدائی اور ممکنہ اقدامات ہی کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی باغبانان سے لے کر متنی اور درہ آدم خیل تک بھٹہ خشت میں ٹائر جلانے سے اٹھتا دھواں کسی کو نظر نہیں آتا اور نہ ہی متنی میں کھلی جگہوں پررکھا گیا کوئلہ اور اس سے ہوا میں شامل ہونے والے کاربن کے ذرات کا کسی کو خیال ہے کرشنگ مشینیں علیحدہ سے آلودگی بڑھانے میں حصہ دارہیں یہ سب مرکزی شہر سے کوئی دس سے با رہ کلو میٹر کے علاقے میں ہو رہا ہے شہر میں غیر قانونی رکشوں بڑی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی کے اوقات دھول مٹی کی صفائی کی صورتحال سبھی کے سامنے ہے مگرکسی کو اس سے سروکار ہی نہیں صوبائی دارالحکومت میں بدقسمتی سے شدید بارشوں کے بعد بھی سڑکیں اورگلیاں دھلنے کی بجائے الٹا نکاسی کے پانی آنے سے مزید آلودہ اور زہریلی ہوجاتی ہیں دنیا میں باقاعدہ قانون سازی کرکے اور طریقہ کار وضع کرکے اس پر سختی سے پابندی کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے اور ہماری حکومت ہاتھی کے کان میں سو رہی ہے یہاں درخت بدستور بیخ و بن سے اکھاڑنے کا سلسلہ جاری ہے جنگلات کٹ رہے ہیں سبزے کے رقبے میں کمی ہو رہی ہے کارخانوںکی چمنیوں سے نکلنے والا کالا دھواں صاف نظر آرہا ہوتا ہے دھواں اڑانے والی گاڑیاں چل رہی ہیں صفائی کا معقول انتظام نہیںغرض ہر وہ عمل جاری ہے جس سے جو فضائی آلودگی اور ماحول کو زہر یلا بنانے میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن حکام کوشاید اس کا انتظارہے کہ بڑھتی شرح اموات سے آبادی میں کمی آئے اور ان کو کچھ کرنا نہ پڑے۔سموگ اور دوسری نوعیت کی فضائی آلودگی جو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے اس پر جدید تقاضوں کے مطابق اقدامات کئے بغیر قابو نہیں پایا جا سکتا کم از کم ابتدائی اقدامات ہی شروع ہونے چاہئیں ماحولیاتی خرابیوں سے نمٹنے کیلئے ماحولیاتی تحفظ کا شعور بھی بہت اہم ہے حکومتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ شہری شعور کا بھی مظاہرہ کیا جانا چاہئے حالات کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے پر سارا سال گفتگو اور اقدامات ہوں صرف اس وقت نہیں جب ایئر کوالٹی انڈکس خطرناک حدوں کو چھونے لگے اور یہ بلا سر پر آئے۔

مزید پڑھیں:  غبار دل