لوگ آئے تھے مری سمت بھی امداد سمیت

پاکستان فلمی صنعت سے وابستہ کچھ شخصیات نے گزشتہ روز لاہور میں ایک اجلاس کے دوران متفقہ طور پرفیصلہ کیا کہ وہ سرکاری اعزازات واپس کریں گے ، اداکارہ میرا (انگلش لینگویج فیم) کے گھر پر پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے کے موقع پر نامور فلمی شخصیات شہزاد رفیق ، مسعود بٹ ، صفدر بٹ ، معمر رانا ، لیلیٰ علی ، گلوکار وارث بیگ اورمشہور ہدایتکار سید نور وغیرہ نے شرکت کی ، اس موقع پرسید نور نے سرکاری اعزازات یعنی پرائیڈ آف پرفارمنس ، تمغہ امتیاز وغیرہ وغیرہ واپس کرنے کا اعلان کیا تو شرکاء نے خوشی سے تالیاں بجائیں حالانکہ یہ موقع خوشی سے تالیاں بجانے کا نہیں آنسو بہانے کا موقع تھا کیونکہ سرکاری اعزازات کی واپسی کی وجہ افسوسناک ہے اور بتایاگیا کہ حکومت فنکاروں کو کوئی سہولت فراہم نہیں کرتی ، نہ ٹرین میں آدھی ٹکٹ پرسفرکا موقع ملتا ہے ، نہ ہوائی سفر میں کوئی رعایت دی جاتی ہے اور یہ اعزازات صرف دیوار کی زینت بن کر رہ گئے ہیں ، یہ خبر پڑھ کر ہمیں وہ لوگ یاد آگئے جنہوں نے اس قسم کے اعزازات اعلان ہوتے ہی واپس کر دیئے تھے یعنی ٹھکرا دیئے تھے ان میں عالمی شہرت کے حامل شاعر احمد فراز بھی شامل تھے ، اگرچہ انہوں نے پہلے پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز حاصل کر رکھے تھے مگر جب چند سال بعد حکومت نے انہیں ہلال امتیاز سے نوازا تو انہوں نے اس دور کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج یہ اعزاز قبول کرنے سے انکار کرکے اسے وصول ہی نہیں کیا بلکہ حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک میں حصہ لیتے ہوئے اسلام آباد میں احتجاجی اجتماعات میں ذاتی طور پر حصہ لینے روزانہ پہنچ جاتے ہاں پھر یہ ہوا کہ ان کی موت کے بعد جس حکومت میں ان کے فرزند ارجمند وفاقی وزیرتھے تو ان کے نام نشان امتیاز (جو ادب اور آرٹ کے شعبے میں سب سے بڑا اعزاز ہے ) کا اعلان کیا گیا حالانکہ ہمیں یقین ہے کہ جس طرح اس سے پہلے مرحوم نے ہلال امتیاز کو ٹھکرا دیا تھا اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ اعزاز بھی قبول نہ کرتے مگر مردہ بدست زندہ کی مانند وہ اپنے بیٹے کی اس ”حرکت” پر منوںمٹی نیچے سے احتجاج کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے ، اسی طرح اور بھی بہت سے لوگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے مختلف ادوار میں بوجوہ یہ سرکاری اعزازات واپس کر دیئے تھے ، ان کابیانیہ البتہ یہ نہیں تھا کہ حکومت انہیں ریلوے اور فضائی سفر میں رعایتیں دے ، اعزازات واپس کرنے والوں کی سوچ اس قدر محدود نہیں تھی ، بلکہ وہ اپنے آدرشوں سے مجبور ان اعزازات کو قبولیت کا درجہ دے کر اپنے نظریات کی شکست نہیں دیکھنا چاہتے تھے ۔ بقول کومل جوئیہ
میں نے ہی بھوک کو خیرات پہ برتر رکھا
لوگ آئے تھے مری سمت بھی امداد سمیت
اس حوالے سے ایک اور طبقہ بھی ہے جنہوں نے تمغہ امتیاز واپس کرنے کی ہمت اور جرأت تو ضرور کی مگر ان کا (مبینہ) نظریہ بنیادی طور پر سول اعزاز یعنی تمغہ امتیاز سے کوئی”ذاتی دشمنی” ہر گز نہیں تھی بلکہ ان کا مطمع نظر اس اعزاز کا ”گھابھن” نہ ہونا تھا یعنی جس طرح پرائیڈ آف پرفارمنس کے ساتھ رقم نتھی ہوتی ہے (اس کا آغاز 25 ہزار روپے سے ہوتے ہوئے اب 12 لاکھ تک پہنچ چکی ہے ) جبکہ تمغہ امتیاز آج تک ایک روپے کے نقد انعام سے محروم ہے اس لئے ا کثر لوگ بغیر ر قم کے اس نعمت خشک سمجھ کر لینے سے انکار کر دیئے ہیں ویسے اصولی طور پر یہ اعتراض بالکل درست ہے اگر پرائیڈ آف پرفارمنس کے ساتھ بارہ لاکھ روپے کی رقم دی جاتی ہے تو تمغہ امتیاز کے ساتھ کم از کم پانچ لاکھ روپے تو ملنے چاہئیں بقول نصرت صدیقی
کس ضرورت کو دبائوں کسے پورا کرلوں
اپنی تنخواہ کئی بار گنی ہے میں نے
سول اعزازات کے حوالے سے چند ایک ایسے افراد بھی گزرے ہیں جن کو ضیاء الحق کی حکومت نے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا مگر ان کی حادثاتی موت کے بعد آنے والی بے نظیر حکومت نے یہ اعزازات منسوخ کر دیئے ان میں دو جید صحافیوں کے علاوہ ایک نعت خواں خاتون منیبہ شیخ اور پشاور کے قاری اور ہمارے ریڈیو پاکستان کے ساتھی مرحوم قاری فدا محمد بھی شامل تھے چونکہ محولہ دونوں صحافی نظریاتی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے ناقدین میں شامل تھے اس لئے ان سے اعلان کردہ اعزازات واپس لینا تو سمجھ میں آتا ہے (اصولی طور پر یہ غلط فیصلہ تھاجس کی تہہ میں”ذاتی” عناد شامل تھا) مگر ایک نعت گو خاتون اور ایک قاری سے جن کاکسی بھی سیاسی دھڑے سے کوئی تعلق نہیں تھا اعزازات واپس لینے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز سرے سے بنتا ہی نہیں تھا ، مگر محولہ دونوں عالمی شہرت یافتہ صحافیوں نے اس قسم کے تمام محروم لوگوں کو اکٹھا کرکے نہ صرف صدرمملکت غلام ا سحق خان کودرخواستیں لکھوائیں(قاری فدا محمد کی تمام خط و کتابت ان کی فرمائش پرراقم الحروف لکھ اور ٹائپ کروا کر ان کو دیتا اور وہ آگے اسے ایوان صدر بھیجوادیتے آخری حربے کے طور پر یہ تمام لوگ عدالت چلے گئے اور بے نظیر حکومت کے اس ”ناجائز” فیصلے کو ختم کرانے میں کامیاب ہوئے ، یہاں ہمیں پشاور ہی کے ایک فنکار اور ہمارے دوست مرحوم صلاح الدین(دیکھدا جاندارہ فیم) یاد آگئے جنہوں نے اپنی طویل بیماری اور بے روزگاری سے تنگ آکر حکومتی امداد نہ ملنے پر احتجاج کا ایک انوکھا طریقہ اختیار کرتے ہوئے نہ صرف پرائیڈ آف پرفارمنس بلکہ پی ٹی وی سے ملے ہوئے ایوارڈز بھی ”نیلام” کرنے کے لئے سڑک کنارے بیٹھ کر رکھ دیئے بالاخر صوبائی محکمہ ثقافت نے انہیں علاج معالجے کے لئے غالباً ایک لاکھ روپے کی امداد دی بلکہ اباسین آرٹس کونسل نے ان کے لئے ایک ا مدادی شو کا بھی اہتمام کیا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم ان کے علاج معالجے کے لئے دی اور بھی بہت سے واقعات ہیں جو سول اعزازات کے ساتھ حافظے میں موجود ہیں مگر کالم کی تنگ دامانی کی وجہ سے ان کا ذکر ممکن نہیں البتہ دو ایسے کرداربھی ہمارے ذہن میں ہیں جن کے نام ابتدائی طور پر ایوارڈز وصول کرنے والوں کی لسٹ میں نہیں تھے ، مگر تب کی برسراقتدار حکومت کے اہم کرداروں کی سفارش پر بالا بالا ہی فائنل لسٹ میں شامل کرکے نہیں ا عزازات دیئے گئے اس سارے قصے کا راقم ذاتی طور پر گواہ یوں ہے کہ میں اس کمیٹی کا رکن تھا جس نے وفاقی سطح پر ہونے والے اجلاسوں میں بطور ممبر شرکت کی تھی ، ضرورت پڑی تو تفصیل سے پھر کبھی آگاہ کر دوں گا ۔ بقول مرزا غالب
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفان کئے ہوئے

مزید پڑھیں:  اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے