کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو

امریکہ میں پھر سے ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتدار آجائے گا ۔نئے دعوؤں اورو عیدوں کے ساتھ اگلے چار برس دنیا پھر سے ان سے نئی آس لگائے گی ۔ پاکستان بھی اسی دنیا کا حصہ ہے جو امریکہ سے کچھ زیادہ ہی آس لگائے رہتی ہے ۔ یہاں کا ہر بندہ امریکہ کو گالیاں دیتا ہے مگر ہر بندے کو یہ یقین بھی ہے کہ امریکہ کا پاکستان پر اثرو رسوخ بہت زیادہ ہے ۔ سب کا یہ خیال ہے کہ ان کی حکومتیں امریکہ نے گرائی ہیں اور سب کی یہ خواہش رہی ہے کہ امریکہ ان کو پھر سے گود لے اور انہیں ایوان اقتدار میں دوبارہ لے کر آئے ۔ مگر یہ یاد رہے کہ پاکستان کی جو اہمیت گزشتہ چار دہائیوں میں تھی وہ امریکہ کے لیے اب نہیں رہی ۔ پاکستان امریکہ کی واضح اور پراکسی جنگوں کے ہر اول دستے میں شریک رہا ہے ۔ جس کا پاکستان کو شدید معاشی اور معاشرتی نقصان ہوا ہے ۔امریکہ کی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے ان پراکسی جنگوں میں امریکی سرمایہ لگانے سے انکار کیا تھا ۔ اب کے بار ان کے دس نکات سن کر تو یہ امید ہوچلی ہے کہ کم از کم امریکہ کی طرف سے ان نمائشی جنگوں کے لیے پیسہ اور مدد دستیاب نہیں ہوگی ۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس پر ہمارے نام نہاد مفکریں اور خود ساختہ ماہرین میں سے کسی نے بھی غور نہیں کیا ۔ ہمارے ملک میں اور افغانستان میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے لاکھوں لوگ اسی جنگی آمدنی پر زندگی گزار رہے ہیں ۔ جب یہ اخراجات امریکہ نہیں دیتا تو وہ ان لوگوں کے لیے منشیات ، اسلحہ کی تجارت اور سمگلنگ کے راستے کھلوا دیتا ہے ۔ پاکستان کی تباہی اور ترقی نہ کرنے کے پیچھے بھی یہی حالات کارفرما ہیں ۔ اب ٹرمپ کے پھر سے آنے پر ان میں شدت آجائے گی ۔ اس لیے کہ گزشتہ چالیس برس سے زیادہ عرصے میں ان کے آشیر باد سے یہ دھندے کرنے والے اب خود طاقتور ہوچکے ہیں ۔ یہ جو افغانستان میں اس وقت سکون اور آمن نظر آرہا ہے ۔ یہ اس لیے ہے کہ یہ سارے دھندے اب ان کی سرپرستی میں ہورہے ہیں ۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ ان لوگوں کی دنیا تک رسائی کی گزرگاہ ہے ۔ یہاں حالات بہتر ہوں گے اور امن و آمان ہوگا تو ان کا دھندہ نہیں چلے گا اس لیے یہاں حالات خراب رکھے جاتے ہیں ۔ اس لیے دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ان اضلاع میں ہی حالات خراب رہتے ہیں جہاں سے افغانستان کی منشیات ، اسلحہ ، معدنیات آتے ہیں ۔آپ غور کرلیں باقی علاقوں میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے ۔اس ملک سے محبت کرنے والوں نے ہزا ر کوششیں کرلیں کہ اب بہت ہوگیا اب تو افغانستانی شہریوں کو ان کے ملک بھیج دیا جائے ۔ اس لیے کہ یہ لاکھوں لوگ اسی کاروبار سے وابستہ ہیں ۔ جس دن اس ملک میں صرف و ہ افراد رہ گئے جو اس کے شہری ہوں اور ان کی شناخت ممکن ہو تو یہاں دہشت گردی ختم ہوجائے گی ۔اس لیے کہ پولیس اور فوج ان کو شناخت کرنے پکڑنے اور سزا دینے میں دیر نہیں لگائے گی ۔مگر یہ لوگ ہر جرم کرکے محفوظ اس لیے ہیں کہ ان کی شناخت نہیں ہے ۔ اور بیرونی طاقتیں یا پھر سمگلرز ان کو آسانی کے ساتھ استعمال کرلیتے ہیں ۔ پاکستان سے چھینے گئے لاکھوں موبائل فون افغانستان کے بازاروں میں بک رہے ہیں ۔کیا یہ سب فرشتے وہاں لے کر جارہے ہیں ۔ پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں آرہی ہیں ۔ کیا یہ آسمان سے اُتر رہی ہیں ۔ کچے کے ڈاکوؤں کا جدید ترین اور
مہلک اسلحہ کیا گوجرانوالہ میں بنتا ہے ؟ پاکستان کے لاکھوں ہیروئن پینے والے یہ نشہ اسلام آباد سے خریدتے ہیں ؟ یہ سب کچھ افغانستان سے آتا ہے ۔ یہی نہیں اربوں ڈالرز کی معدنیات بغیر کسی ٹیکس اور محصول کے آتے ہیں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں یہاں سے بھیجے جاتے ہیں ۔ یہ سب کون کررہا ہے ۔ ان سب چیزوں کے سودے ڈالرز میں ہوتے ہیں اور ڈالرز پاکستان کے لوکل مارکیٹوں سے اٹھائے جاتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر ز کی کمی ہوتی ہے اور روپیہ پر دباؤ آتا ہے اور ڈالر کے مقابلے میں اس کی قیمت گرتی جاتی ہے ۔ اس وجہ سے پاکستان میں بدترین مہنگائی اور پھر اس کے نتیجے میں بے روزگاری پیدا ہوتی ہے ۔ لیکن ہم نے اس عفریت کو اپنے گلے کا طوق بنایا ہوا ہے ۔ اس وقت پاکستان کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ اس کے لیے خوراک اور دیگر وسائل بہم پہنچانا تقریباً ناممکن ہوتا جارہا ہے اس پر ہم نے چالیس لاکھ سے زیادہ غیر ملکیوں کو بھی پال رکھا ہے ۔ جو قانون کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں ۔ ہم وہ عجیب قوم ہیں کہ ہزارں میل دور امریکہ میں انتخابات پر تو نظر رکھتے ہیں اور وہاں کے صدر کے منتخب ہونے پر خوش یا خفا ہوتے ہیں لیکن اپنے ملک کی فکر نہیں کرتے ۔ اپنے محلے اور گھر کی صفائی نہیں کرتے ، اپنے لیے خوراک اور وسائل کے لیے فکر مند نہیں ہوتے ۔اس ملک کو ہم قرضوں کے دلدل میں دھکیل تو رہے ہیں لیکن یہ نہیں سوچ رہے کہ اس کے نتیجے میں کل کیا ہوگا ۔ اس ملک میں تعلیم اور صحت پر کسی بھی حکومت کی توجہ نہیں ہے ۔اگر ہم نے اس ملک کو بحرانوں سے نکالنا ہے تو ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی ہوں گی ۔ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے سے پہلے ہی ہمارے صاحباں اقتدار و اختیار کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرلینا چاہئیے ورنہ دیر ہوجائے گی ۔ وہ پالیسی جو گزشتہ چالیس برس سے زیادہ عرصہ رہی ہے اس کو بدلنا ہوگا ۔ ہمیں اب وار اکانومی سے نکل کر تجارت اور دنیا کے ساتھ دوستانہ مراسم کی طرف بڑھنا ہوگا ۔ یہی سب کچھ دنیا کے تیزی سے ترقی کرنے والے تمام ممالک کررہے ہیں ۔ ہمیں اب ہر پھڈے میں ٹانگ اڑانے سے گریز کرنا ہوگا ۔ ہمیں بیرونی قرضوں اور امداد کے ناموں پر قرضوں سے خود کو روکنا ہوگا ۔ ہمیں اب پاکستان کی بہتری اور مفاد کے فیصلے لینے ہوں گے ۔ ہمیں اپنے وسائل پر کام کرنا ہوگا ، ہمیں اپنے افرادی قوت کی تربیت پر توجہ دینی ہوگی ۔ہمیں انگریزوں کے بابوبناؤ نظام تعلیم سے نکل کر عملی تعلیم کی طرف جانا ہوگا ۔ ہمیں موجودہ کالجوں کے نظام کو بدل کر کمیونٹی کالج ماڈل اپنانا ہوگا ۔ ہمیں سرمایہ کاروں اور ان کے سہولت کاروں کی مراعات فوراً ختم کرنے ہوں گے ۔ ہمیں خدمات پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے ہوں گے او ر حکومتی اخراجات ستر فیصد کم کرنے ہوں گے۔ تب کہیں جاکر ہم اپنے خواب دیکھ سکیں گے ، خود سے کما اور کھا سکیں گے ۔ دنیا میں اپنی عزت کروا سکیں گے ۔ یہی سب کچھ اس وقت افریقہ اور ایشیاء کے وہ ممالک کررہے ہیں جن پر چند برس پہلے ہم ہنسا کرتے تھے ۔ مگر آج وہ ہم پر ہنس رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش کی اکانومی دیکھیں ، ویتنام ، ایتھوپیا، سینگال، تاجکستان،تنزانیہ ، ازبکستان، مالدیپ، گانگو غرض ایک طویل فہرست ہے کسی دن اگر فرصت ہو گلوبل فنانس کی ویب سائٹ پر جاکر ملکوں کی کارکردگی اور ترقی کا گراف دیکھیں ۔ آپ کو سمجھ آجائے گی کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جارہے ہیں اور دنیا کہاں کھڑی ہے اور کہاں پہنچے گی۔ اس ملک میں سب لوگوں کو سیاست کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر اس ملک کو لوٹا جارہا ہے اور اس کی ترقی اور بہبود کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جارہا ہے ۔پاکستان کی حالت بقول اسرار الحق مجاز کہ:
مری بربادیوں کا ہم نشینوں
تمہیں کیا خود مجھے بھی غم نہیں ہے

مزید پڑھیں:  پیپلزپارٹی۔ جواب دعوی اور سوالات