کھوکھلے مطالبات

سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہونے والی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں کیا گیا ہے کہ اسرائیل کی غزہ کے شہریوں کو اجتماعی سزا دینے کی مذمت کی گئی ہے اسرائیل بھوک اور فاقہ کشی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ اسرائیل کو اشتعال انگیز پالیسیوں سے روکنے کے لئے اقدامات کرے،اقوام متحدہ میں اسرائیلی رکنیت کو معطل کرنے کے لئے عالمی برادری کو آمادہ کیا جائے۔دریں اثناء مشترکہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے فوری طور پر فلسطین میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے، غزہ میں بھوک، افلاس کے ڈیرے ہیں۔ غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے، نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں کا قتل بند کیا جائے، کانفرنس کو4بنیادی اقدامات پرعمل درآمدکرانا ہوگا۔ سب سے پہلے فوری جنگ بندی کرانا ہوگی۔ فلسطین میں امدادی سامان کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے تحت کارروائی پر زور دینا ہو گا۔ فلسطین کے عوام کو ان کے حقوق دلانا ہوں گے ۔ مسلم سربراہان کا اجلاس اولاً غزہ پراسرائیلی حملوں کے تیرہ ماہ بعد منعقد ہوا اس دوران غزہ کی پٹی اور اس کی آبادی پر جو گزری وہ ناقابل بیان ہے ایک اندازے کے مطابق 44 ہزار کے قریب یا اس سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی ایک لاکھ سے زائد ہے ملبہ تلے دب کر جاں بحق ہونے والوں کی صحیح تعداد کا علم اور اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکا دیکھا جائے تو غزہ کی پٹی ہر طرف قیامت صغریٰ کامنظر پیش کر رہی ہے خود اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق غزہ میں شہید ہونے والوں میں ستر فیصد خواتین اور بچے ہیں لبنان میں بھی روزانہ کی بنیاد پر شہری اسرائیلی جارحیت کا شکار ہو رہے ہیں غزہ کے بعد بیروت کا تعمیراتی ڈھانچہ بھی مٹنے کو ہے اس طرح کے تباہ کن حالات میں عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے انعقاد کے بعد کمزور اور وسطی اعلامیہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی کا ثبوت ہے مسلم ممالک کی اس طرح کے بے حسی ہی سے اسرائیل کو محولہ قسم کے مظالم ڈھانے کے آزادانہ مواقع میسر آتے ہیں اور ان کو مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی کا علم ہے مشکل امر یہ ہے کہ مسلم حکومتیں لفظی مذمت میں بھی سخت الفاظ کے استعمال کی ہمت نہیں پاتیں سربراہی اجلاس کا اعلامیہ اس کا تازہ ترین ثبوت ہے ۔جب مسلم ممالک کے سربراہوں کی ہمت اور اسرائیلی مظالم کے حوالے سے موقف کے کمزور ہونے کا یہ عالم ہوگا تو اقوام متحدہ اور دیگر پلیٹ فارمز سے کس طرح یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے سامنے کھڑے ہوں اس کے باوجود بعض غیر مسلم ممالک کے سربراہوں اور شہریوں نے مسلمانوں سے بڑھ کر ردعمل کا مظاہرہ کیا یہ مسلم ممالک ہی کے کمزور ردعمل کا نتیجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی عدالت انصاف سمیت سبھی فورمز سے اسرائیلی بربریت کی مذمت اور مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی پرزور کے مطالبات پراثر نہیں ٹھہرے اور اس کا مطالبہ کرنے والوں نے عملاً اس ضمن میں عملی اقدامات سے گریز کیا جسے محض رسم پوری کرنے سے ہی تعبیر کیا جانا چاہئے اگر مسلم ممالک ان فورمز پر پوری شدت اور قوت کے ساتھ متحد ہو کر سخت ردعمل دیتے اور دبائو ڈالتے تو بہتر نتائج کی توقع تھی اب بھی اس کا مظاہرہ نہیں یاگیا بلکہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں پچاس سے زائد ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ سطحی نمائندوں نے آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ ہی دہرایا ہے بلاشبہ ایسا مطالبہ کرنا تو موزوں اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام تو ناگزیر ہے مگر یہ وصال یار فقط آرزو کی بات سے کہیں بڑھ کربات ہے اس کے لئے مسلم ممالک کو سفارتی سطح پر جس طرح موثر حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اس کا فقدان واضح ہے اس لئے کہ ایک سال قبل بھی عرب لیگ اور اسلامی تعاون کونسل کا اسی طرح کا اجلاس بلایا گیا تھا اورجن عزائم کا اظہار کیا گیا تھا وہ کسی پیش رفت کا باعث نہ بن سکیں اور نہ ہی ان ممالک نے اس بارے میں کسی غیر معمولی اقدام یہاں تک کہ مطالبے کی زحمت گوارا کی ۔ان عوامل کے مدنظر آگے بھی کسی بھلے کی امید نہیں بہرحال اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت ختم کرنے فلسطینی عوام کو خوراک و طبی امداد کی بہم رسائی اور لبنان کی سا لمیت اور خطے کو جنگ سے بچانے سمیت کانفرنس کے اعلامیے کے نفاذ کے لئے کیا قدم اٹھایا جاتا ہے اس وقت اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی او رغزہ کے زخمیوں کے علاج معالجے اور خطے میں جاری انسانی المیہ کے حل کے حوالے سے کوششوں میں تیزی اور ان کو موثر بنانے کے اقدامات کی بجائے پہلے سے جاری کوششیں بھی تعطل کا شکار ہیں ان حالات میں جب تک مسلم ممالک اپنی صلاحیتوں اور قوت کو مجتمع کرکے اسرائیل اور ان کے سرپرستوں کے سامنے کھڑے نہیں ہوتے تب تک خطے میں جاری حالات میں بہتری اور اسرائیلی جارحیت بند کرنے کی نوبت شاید ہی آئے ۔

مزید پڑھیں:  گورنر راج۔۔۔ تضاد بیانی