خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آتا جبکہ ملک من حیث المجموع ایک صبر آ ز ما دور سے نکل چکا دیکھا جائے تو سندھ خاص طور پر کراچی حیدرآباد اور کچھ دیگر علاقے بھی دہشت گردی کی ایک دیگر قسم کا شکار رہے جو ایک طویل واعصاب شکن دورانیہ گزار کر اس مشکل مرحلے سے نکل چکے نسلی عصبیت سے پیدا نفرتوں کو جڑ سے اکھاڑنے کا مشکل کام ابھی بھی باقی ہے لیکن نجانے کتنا وقت لگے اور کب اس خواب کی تعبیر ممکن ہو صرف یہی نہیں بلکہ ملک مذہبی انتہا پسندی اور قتل مقاتلوں کے ایک نازک دور کا بھی سامنا کرچکاہے مگر یہ سب بیتے دنوں کی بات ہے اب بھی چیلنجوں کا سامنا ہے بلوچستان میں دہشت گردی کا تازہ واقعہ ہی پریشان کن امر نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے جنوبی حصے میں تعلیمی اداروں کو دہشت گردی کے خطر ے سے سرکاری طور پر خبردار ی کا اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا ہے جو لا محالہ مصدقہ اطلاعات اور درست انداز و ں کی بنیاد پر ہی جاری کی گئی ہو گی ۔خیبرپختونخوا کے جنوبی حصے ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کا شکار چلے آ رہے ہیں کئی طویل اور اعصاب شکن آ پریشن ہوچکے کچھ عرصہ امن و امان کی صورتحال میں بہتری بھی دیکھی گئی مگر ایک مرتبہ پھر وہی صورت حال پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔دہشت گردی عود کر کیسے آ ئی ظاہر ہے اس کی کوئی ایک وجہ تو ہو تو ہو نہیں سکتی اس کی بڑی وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ نظر آ تی ہے کہ خیبر پختونخوا میں انسداد دہشت گری کے لئے جو وسائل دیئے گئے تھے ان کا درست استعمال نہ ہوا یہ ایک طویل بحث ہونے کے ساتھ ممکن ہے سیاسی رنگ اختیار کر ے بنا بریں گریز کرتے ہوئے ایک مثال کا سہارا لیتی ہوں کسی کو رسائی ہو اور جب بھی موقع ملے اس کی تصدیق بھی کی جاسکتی ہے قبل اس کے یاد دھانی کرائوں کہ خیبرپختونخوا دہشت گردی کے حوالے سے پہلا یعنی پرخطر صوبہ ہے بلوچستان دوسرا اور سندھ تیسرا جبکہ پنجاب آ خری نمبر پر ہے لیکن انسداد دہشت گری کے جملہ انتظامات میں پنجاب کہیں پر وسائل ہے کیونکہ پنجاب کو اس ضمن میں جتنے بھی وسائل ملے کوشش کی گئی تھی کہ وہ جدید آ لات اور سازو سامان پر خرچ ہو ان کے پاس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید آ لات موجود ہیں جامع ڈیٹا اکٹھا کرکے سنبھالنے کی ذمہ داری نبھائی گئی ہے غرض کافی کام ہوا ہے جبک اس کے مقابلے میں خیبر پختونخوا میں جہاں د ہشت گردی کے خطرات سب سے زیادہ ہونے کے باعث اس سے نمٹنے کے اقدامات بھی خاطر خواہ ہوں صورتحال مایوس کن بتائی جاتی ہے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا 590 ارب روپے کی خطیر رقم ملنے کے باوجود تہی دست اور بے وسیلہ کیوں ہے اس کا علم نہیںخیبرپختونخوا پختونخوا کو ملنے والے وسائل سے یہ سب کچھ کرنے کی بجائے زیر زمین قید خانے کی فرش سفید قیمتی سنگ مرمر کا بنایا گیا ہے تہہ خانے کے دہشت گردوں کو بٹھا کر تفتیش کرنے کے کمرے میں دہشت گردوں کو بٹھا نے والی طرف کی دیوار پر ہیٹر اور انگیٹھی کے لئے بہت خوب صورت ڈیزائن کی جگہ بنائی گئی ہے اور اسے کافی خوبصورت بنایا گیا ہے سوال پر مضحکہ خیز جواب دیا گیا کہ ایسا برابر کے انسانی حقوق کا خیال رکھنے کے باعث کیا گیا انسانی حقوق کا خیال بہت اچھی بات لیکن ہمارے ہاں انسانی حقوق کی کیا صورتحال ہے سب کو اس کا بخوبی علم ہے دہشت گردوں کو تو چھوڑیں سیاسی کارکنوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے دہرا نے کی ضرورت نہیںملکی سطح پر انسداد دہشت گری کے لئے پولیس سی ٹی ڈی ٹی اور درجنوں ایجنسیاں اپنے اپنے طور پر مصروف عمل ہیں ان کی کارکردگی پر بھی انگلی اٹھا نا مطلوب نہیں مگر عدم اعتماد کا فقدان اور باہمی تعاون سے گریز وہ خامی ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ملکی سطح پر ارتباط کے لئے نیکٹا کا قیام عمل میں لایا گیا مگر عدم تعاون اور نیکٹا کو ضرورت کے مطابق فعال نہ بنا کر اسے بھی عضو معطل بنا کر رکھ دیا گیا کچھ ادارے اسے اپنی مرضی پر چلانا چاہتے ہیں تو باقی کسر ڈیپوٹیشن پر آ نے والے افسران پوری کرکے چلے جاتے ہیں۔اب تو خیر سے یہ پھول بن کھلے مرجانے کو ہے کہ اسے بھی غیر ضروری محکموں کی فہرست میں شامل کرنے کی شنید ہے اگر نہ بھی ہو توبھی اب تک تو یہ ادارہ عضو معطل ہی ہے کہ یہاں پرڈیپوٹیشن پر آنے والوں کی مداخلت بے جا کا یہ عالم ہے کہ بیرون ملک تکنیکی تربیت کے لئے منتخب ادارے کے افسران کے نام روک کرتین سالہ دور کے آنے والوں کو بھیجا جاتا ہے جن کی تربیت کا ادارے کو کوئی مستقل و پائیدار فائدہ نہیں ملنا ہوتا ہے ادارے میں ڈنگ ٹپائو قسم کے ایسے افراد بیٹھے ہوتے ہیں جن کو فائل پر دستخط کرتے ہوئے موت پڑتی ہے اس وقت بھی ادارے میں سوائے کارگل کے محاذ پر چہرے پر دو گولیاں کھا کر بچ نکلنے والے ایک غازی کے علاوہ کام میں دلچسپی لینے والوں کی کمی کا شدت سے احساس دلایا جا رہا تھاادارے میں عجیب و غریب قسم کے فیصلوں کی ایک طویل کہانی ہے جو پھر کبھی سہی ۔ نیکٹا کا
بطور خاص جائزہ اس لئے ضروری سمجھا گیا کہ اس ادارے کا ایک امید کے طور پر قیام عمل میں لایا گیا تھا جسے پوری طرح فعال بنا کر ملک میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ایک مربوط مستقبل اور فعال نیٹ ورک تشکیل دے کر جدید آلات کو بروئے کار لا کر معاملات پر کڑی نظر رکھی جائے تو کافی سے زیادہ بہتری کی تو امید ہے مگر جو صورتحال بتائی جارہی ہے اس میں امید کا دیا ٹمٹما جاتا ہے ایک ایسی پرکیا موقوف یہاں تو آوئے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے آپ کو یہ بھی یاددلائیں کہ قومی سطح پر نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا سیاسی و عسکری قیادت نے اتفاق کیا مگر اقدامات کی باری نہ آسکے چند ایک ہی نکات پر عملدرآمد ہوا باقی پر کام نہ صرف باقی ہے بلکہ لگتا یہی ہے کہ اس پر کبھی کام بھی ہو گا یا نہیں۔ آخر دہشت گردی ، شدت پسندی ،عسکریت اور تعصبات کے خاتمے کے اقدامات پراتفاق کے باوجود اس دو عملی کی کوئی وجہ ہو بھی سکتی ہے کہ نہیں کچھ وجوہات تو ہوں گی مگر کیا ہو سکتی ہیں اگر سچے پاکستانی اور محب وطن بن کر سوچا جائے تو شاید کچھ سمجھ نہ آئے مگر ذرا ہٹ کر سوچیں تو ہرجگہ مفاد اور غلط پالیسیاں منہ کھولے ملیں گی جنہیں دیکھ کر بار بار خیال آتا ہے کہ آخر ہم اپنے ملک کودہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنے میں سنجیدہ بھی ہیں کہ نہیں سوال تو بالکل بھی نہیں بنتا اور اس درجے کا سوال کرنا بھی نہیں چاہئے لیکن اس کے بنا رہا بھی نہیں جا سکتا کہ ملک تباہی کے دہانے پہنچ گیا ہے دہشت گردی کی عفریت سب کچھ نگلنے کو ہے روم جل رہا ہے مگر نیرو بیٹھے بس بانسریاں ہی بجا رہے ہیںآخر سنجیدہ عملی سے اقدامات کب ہوں گے سانپ کا سر سارے پیرمل کر کب کچلیں گے یہ غفلت ہی ہے جس کے باعث سانپ آئے روز کسی نہ کسی ٹانگ سے لپٹ کر اسے ڈس لیتا ہے اور حکمران جنازوں کو کندھا دینے کو ذمہ داری پوری کرنا سمجھ بیٹھے ہیں آخر کب تک؟۔
Load/Hide Comments