ان دنوں ملک کے مختلف حصوں میں فوگ (دھند)اور سموگ(دھوئیں کے بادل) کی فراوانی نے اپنی بادشاہت قائم کر رکھی ہے اور گزشہ روزسے جہاں پنجاب کے بڑے شہروں میں دھند اور دھوئیں کی وجہ سے کثافت میں بہت اضافہ ہوچکا ہ اور لاہور میں تو لوگوں کا جینا دو بھر ہوگیا ہے ، ماہرین صحت نے عوام کو ماسک پہننے کی ہدایت کی ہے کیونکہ لوگوںکو سانس لینے میںبھی شدیددشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، ملک بھر میں موٹرویز پردھند کی دبیز چادر پھیلنے کی وجہ سے ایک دو فٹ کے فاصلے پر بھی دکھائی دینے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر رہ جانے کی وجہ سے تقریباً دن گیارہ بجے یا اس کے بعد بھی سڑکیںبند رہتی ہیں اور عوام کو گھروں سے نکل کر شاہراہوں ، خصوصاً موٹرویز پرسفر کرنے سے منع کیا جارہا ہے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی بعض ویڈیوزمیں صوابی کی صورتحال سے اندازہ ہو رہا تھا کہ دن گیارہ بجے بھی دھند کی وجہ سے اس قدر اندھیرا چھایا ہوا تھا کہ رات کاسماں لگ رہاتھا اور بازاروں میں دکانوں پر لوگوں نے بجلی کے بلب ، ٹیوب لائٹ وغیر ہ جلا کر کاروبار جاری رکھا ہوا تھا جبکہ سڑکوں پر چلنے والی ٹرانسپورٹ بھی ہیڈ لائٹس روشن کرکے گزرتی دکھائی دے رہی تھی ، ڈیرہ اسماعیل سے ہمارے ریڈیو دور کے ایک دوست گلزار احمد صاحب نے ایک پیغام فیس بک پر اپ لوڈ کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”ڈیرہ اسماعیل خان ایک ہفتے سے سموگ کی زد میں ہے مگرآج سردی کی لہر بھی شامل ہو گئی ، آپ کے ہاں کیا حال ہے ؟” ہم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”سردی کی لہر شامل ہونے سے سموگ میں سے حرف میم (م) خارج ہوگیا ہے انہوں نے اس تبصرے کو خوب انجوائے کیا حالانکہ صورتحال تقریباً یہی ہے کیونکہ انسانی زندگی کوجو خطرات اس صورتحال سے لاحق ہو چکے ہیں اس پر ”سوگ” ہی منانا رہ جاتا ہے بہرحال یہ سب حضرت انسان کا اپنا ہی کیا دھرا ہے بارشیں نہ ہونے یا کم ہونے سے فضا کی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے ، اور بارشیں نہ ہونے یا کم ہونے کا کارن ”جنگل مافیا” کی کارستانیاں ہیں ، جنہوںنے متعلقہ سرکاری عمال کے ساتھ مل کر جنگلات کا صفایا کردیا ہے ایکڑوں کے ایکڑ جنگلات اب گنجے پن کا شکار ہیں اس کے نہ صرف ماحولیات پر اثر پڑتا ہے بلکہ دیگر کئی مسائل بھی جنم لیتے یہں جن کی تفصیل میں جایا جائے تو مزید ایک دو کالم بھی لکھے جاسکتے ہیں یہ تو اس مسئلے کا ایک پہلو ہے جبکہ دوسرا پہلو دنیا بھر میں صنعتوں کا فروغ ہے جس کی وجہ سے خارج ہونے والے دھوئیں سے اوزون لہر کوشدید خطرات سے دو چار کر رکھا ہے اور موسموں کے تغیر وتبدل پر پڑنے والے اثرات سے بھی صورتحال خطرناک ہو رہی ہے تیسرا پہلوخود حضرت انسان کے فصلوں کی باقیات کو جلانا ہے جس سے دھوئیں کی کثافت میں اضاف ہوتا ہے گزشتہ چند برسوں سے بھارت کے شہروں امرتسر ، جالندھر اور دیگر ملحقہ علاقوں میں فصلوں کی باقیات(بھوسے وغیرہ) کوجلانے سے وہاں کا دھواں لاہور اور دیگر ملحقہ علاقوں میں سموگ کی شکل میں مسائل پیدا کر رہا ہے وہاں پاکستانی حکام نے مصنوعی بارش سے فضا کی آلودگی ختم کرنے کی کوشش ضرور کی مگر یہ کوشش کبھی جزوی طور پر کامیاب اور کبھی ناکام رہی بارشیں ان دنوں نہیں ہو رہیں محکمہ موسمیات والے جو پیشگوئیاں کرتے ہیں وہ بھی کامیابی اور ناکامی کی سرحدات کو چھوتے ہوئے امید و بیم کی کیفیت کا باعث بن جاتی ہیں یعنی بقول نواب مرزا داغ دہلوی
ذرا چھینٹا پڑے تو داغ کلکتہ نکل جائیں
عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں
ہمارے ہاں(پشاور میں) تو ساون ویسے بھی کبھی نہیں برسا اور وہ جو ساون کے دنوں میں کبھی گابھن بادل ادھر کارخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو نوشہرہ یا زیادہ سے زیادہ پبی تک ہی اپنا جوبن دکھا کر چراٹ کی پہاڑیوں کے سدراہ ہون کے نتیجے میں واپس مڑ جاتے ہیں اور ہم ان کے لئے ترس کر اپنے ”پشکال” پر ہی اکتفا کرتے ہوئے اپنے بدن نازک کے پسینے سے شرابور ہوتے رہتے ہیں ، یعنی بقول احمد فراز
طنز ہے سوختہ جانوں پہ گرجتے بادل
یا تو گھنکھور گٹھائیں نہ اٹھایا برسا
ویسے اس موجودہ صورتحال نے ہمیں آج سے تقریباً 45برس پہلے کے کوئٹہ کی یاد دلادی ہے جب ہم ریڈیو پاکستان میں اپنی پہلی ترقی پر بطور سینئر پروڈیوسر تعیناتی کے حوالے سے کوئٹہ پہنچا دیا تھا اور دسمبر کے مہینے میں سردی اور برف باری کے مناظر سے لطف اندوزہونے کے ساتھ ساتھ اس ”سموگ یا فوگ” سے پریشان ہونے پر بھی مجبور ہوتے تھے ، ہم نے ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی تھی کہ بلاشک و شبہ دھوئیں کی ایک دبیز تہہ راہ چلتے ہوئے آپ کے سروں سے زیادہ سے زیادہ تین ساڑھے تین فٹ کے فاصلے پر چادر کی طرح تنی ہوتی تھی دراصل یہ وہ دھواں تھا جو گھروں ، دفاتر اور دیگر عمارتوں میں لوگ سردی کی شدت سے بچنے کے لئے آگ جلا کر اپنا بچائو کرتے تھے مگر مختلف اشیاء کے جلانے کی وجہ سے جودھواں نمودار ہوتا تھا وہ سردی کی وجہ سے سموگ یا فوگ کی دبیز تہہ میں تبدیل ہو جاتا تھا ، ان جلائے جانے والی اشیاء میں لکڑی کے گٹکے ، پہاڑی کانوں سے نکلنے والا کوئلہ ، مٹی کے تیل سے جلنے والی مخصوص انگیٹھیاں ، سلینڈروں میں سپلائی ہونے والی گیس کے علاوہ چند علاقوں میں فان گیس کے پلانٹ سے گھروں میں فراہم کی جانے والی گیس(جس سے کئی اموات بھی واقع ہوتیں) اور دیگر مقامی طور طریقوں سے گھروں میں کھانے پکانے کے ساتھ کمروں کو گرم رکھنے کے لئے اہتمام ، یہ تمام طریقے دھوئیں میں اضافہ ہی کرتے رہتے تھے اور خارج ہونے والے دھوئیں سے سروں کے اوپر تنے ہوئے دھوئیں کی چادر میں تبدیل ہوتے رہتے تھے ، اس صورتحال میں دو چار روزکے لئے تبدیلی تب آتی تھی جب بارش اور برف باری ہوتی جس کے بعد ایک آدھ دن کے لئے سورج اپنا مکھڑا دکھاتا تو فضا خوشگوار ہوجاتی مگر اس کے بعد پھر وہی دھواں اور وہی شب روز ، کہ بقول شان الحق حقی
سمجھ میں خاک یہ جادو گری نہیں آتی
چراغ جلتے ہیں اور وشنی نہیں آتی
آج جب یہ کالم تحریر کیا جارہا تھا پشاور میں بھی ”سموگ” کی صورتحال کے حوالے سے خبریں سامنے آرہی ہیں اور دھند کی وجہ سے ”ویژن” صفر کے ہندسے پر آگئی ہے یعنی بقول تابش دہلوی
تاریک تھی فضائے چمن ابرباد سے
جب آشیاں جلا تو ذرا روشنی ہوئی
Load/Hide Comments