قرضے نہیں امداد

آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو میںکلائمنٹ فنانس گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے ترقی پذیر ممالک کے ایک انتہائی اہم مسئلے کی جانب توجہ دلائی اور عالمی برادری خصوصاً ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا کہ وہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو ماحولیات کے مسئلے کی س نگینی سے نمٹنے کے لئے قرضے نہیں امداد دیں، انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے آگے آنا ہوگا سالوں سے کئے گئے وعدے اور یقین دہانیوں کے باوجود بڑے پیمانے پر فرق بڑھتا جارہا ہے ، ترقی پذیر ممالک کو 2030ء تک 6 ہزار ارب ڈالر کی ضرورت ہے ، قرضے موت کا پھندا بن چکے یں ، ہمیں قرضوں کی نہیں امداد کی ضرورت ہے ، امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا بھرمیں ماحولیات کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل کا منبع ترقیافتہ ممالک کے اندر سے برآمد ہوتا ہے ، ماحولیاتی آلودگی میں اہم کردار اور بھاری حصہ مغرب میں صنعتی ترقی سے وابستہ ہے جب چھوٹے بڑے اور بھاری صنعتوں کے تحت چلنے والے کارخانوں کی چمنیوں سے اٹھنے والے دھوئیں نے اوزون لہر کو بری طرح متاثر کیا ، اور یوں دنیا بھر میں بھی صنعتی ترقی نے حصہ بہ قدر جثہ اپنا حصہ ضرور ڈالا تاہم ماحولیات کو جس قدر نقصان بڑے ترقی یافتہ ممالک نے پہنچایا اس کے عشر عشیر بھی چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک نے اپنا حصہ نہیں ڈالا ، اوزون لہر میں ”تصوراتی” چھید کی وجہ سے دنیا بھر میں سورج کی تمازت بڑھنے سے گلیشیرز تیزی سے پگھلنے لگے ،اور سمندروں اور دریائوں میں طوفانوں اور سیلابوں کی صورتحال پیدا ہوئی بڑے بڑے طوفانوں نے مختلف ممالک میں سیلابوں سے تباہ کاری کو جنم دیا ، جن کی وجہ سے بستیوں کی بستیاں پانی کی ز د میں آکر انسانی المیے کا باعث بنیں گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران سونامی اور اس سے کم اور زیادہ طاقت کے سیلابوں نے عالم انسانیت کو جن مسائل سے دو چار کیا ، اس کی تفصیل سے پوری دنیا واقف ہے اوپر سے رہی سہی کسر عالمی قوتوں کے مابین چھوٹے ممالک پر ٹھونسی جانے والی جنگوں میں بھاری اسلحہ ، گولہ باروداور جنگی سازوسامان کے فروخت سے بھی ان ہتھیاروں سے زمین کا ماحول بری طرح متاثر ہوا بلکہ اب بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ، خطرناک بموں اور گولہ بارود نے بھی ماحولیات کو انسانی زندگی کے لئے مسموم بنا کر نہ صرف فضا کو زہر آلود کر دیا بلکہ آبادیوں اور قدرتی ماحول کو بھی بری طرح متاثر کرکے جنگلی حیات تک کو معدومیت سے دوچار کر دیا ہے ، دور جانے کی ضرورت نہیں جب ہم اپنے ہی وطن کا جائزہ لیتے ہیں تو گزشتہ چالیس سال سے زیادہ عرصے پر محیط افغان جنگ نے ہمارے ماحول پر جو مختلف منفی اثرات مرتب کئے ہیں ان میں ہمارے ملک کے بالائی اور قبائلی علاقوں میںاگے ہوئے جنگلات کی افغان مہاجرین نے جس بے دردی سے کاٹ کاٹ کر ایکڑوں پر پھیلے ہوئے سرسبز ماحول کوتباہی اور بربادی سے دو چار کیا اس کی تمام تر ذمہ داری ان ترقیافتہ ممالک پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنے اپنے قومی مفادات کے تحت اس خطے کو جنگ کے شعلوں کی نذر کیا اور نہ صرف بھاری اسلحے کا بے دریغ استعمال کرکے ماحول کو پراگندہ اور زہر آلود بنا دیا بلکہ لاکھوں افغان مہاجرین کو ہمارے ہاں لا کر بسانے کی وجہ سے ہمارے ملک کے ماحول کو تباہ برباد کرکے رکھ دیا ، اوپر سے دوبار کے سیلاب اور خوفناک زلزلے سے (جس کے بارے میں ان خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ بھی مصنوعی طور پرلایا گیا تھا حقیقت کیا ہے اس بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے ) جو تباہی مچی اور انسانی المیوں نے جنم لیا اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع ہے نہ محل کہ ہر کوئی اس کی تفصیل سے بخوبی واقف ہے ، ان طوفانوں اور زلزلوں نے ہماری معیشت کو جس تباہ کن صورتحال سے آشنا کیا وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عالمی برادری نے ان حادثات کے دوران جو امدادی اعلانات کئے ان پر مکمل عمل درآمد کی آج تک نوبت نہیں آئی اور کئی ممالک کے ذمے ان کے امدادی اعلانات کے حوالے سے امدادی رقوم اب تک ادائیگی کی راہ تک رہے ہیں ، جبکہ پاکستانی حکومت کو اس کی تباہی اور بربادی کی صورتحال سے مجبوراً خود ہی نمٹنا پڑا ہے جس کی وجہ سے اربوں کے اخراجات خود برداشت کرنے کی وجہ سے کئی سالانہ بجٹ متاثر ہوئے ہیں ، ایک ترقی پذیر ملک کب تک خود اپنے ہی وسائل سے مسائل کو ختم کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے جبکہ وہ پہلے ہی قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہو ، اس لئے تو ہماری معیشت ٹیک آف کی پوزیشن میں ہی نہیں آرہی ہے حالانکہ اس کے پیچھے دوسری سازشیں اور عوامل بھی کارفرما ہیں تاہم ترقی یافتہ ممالک کو اپنے وعدے نبھانے کے لئے عملی اقدام اٹھانا پڑیں گی اور ترقی پذیر ممالک سے کئے ہوئے امداد کے وعدے پورے کرکے صورتحال میں مثبت تبدیلی لانے پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  بھارت کی ہٹ دھرمی اور کرکٹ