سینیٹ کی قائمہ کمیٹی فوڈ سیکورٹی نے گندم درآمد سکینڈل کی انکوائری کا فیصلہ کرتے ہوئے تحقیقات کے لئے ایمل ولی خان کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی ہے کمیٹی کے ٹی او آرز بھی طے کئے جائیں گے امر واقعہ یہ ہے کہ ملک میں وافرمقدار میں گندم کے ذخائر ہونے کے باوجود نگران دور میں بڑے پیمانے پر گندم کی درآمد کے انکشافات سامنے آئے تھے 13مئی 2024ء کو لاہور ہائی کورٹ میں گندم سکینڈل کی تحقیقات نیب سے کرانے کی درخواست دائر کردی گئی تھی 6 مئی 2024ء کو وفاقی وزیر برائے نیشنل فورڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین نے 2023-24ء کے دوران درآمد کی گئی کیڑے سے متاثرہ گندم کے معاملے کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس نے انکشاف کیا تھا کہ نگران حکومت نے 330ارب روپے کی گندم درآمد کی جس میں 13ملین ٹن گندم فنگس کی وجہ سے انسانی استعمال کے قابل نہیں ، غالباً یہی وجہ ہے کہ سیکرٹری فوڈ اور ایم ڈی پاسکو نے ذیلی کمیٹی کی تجویز کی مخالفت کر دی ہے تاہم چیئرمین کمیٹی مسروراحسن نے بتایا کہ ہم صرف ان کمیٹیوں کے سہارے نہیں ر ہ سکتے ، یہ بڑا سکینڈل ہے ذیلی کمیٹی خود تحقیقات کرے گی اب یہ ذیلی کمیٹی اس معاملے کو حتمی انجام تک پہنچانے کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے اس کے لئے مزید انتظار کی کوفت سے گزرنا ہی پڑے گا، تاہم یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ ملک میں گندم کی درآمد و برآمد کے حوالے سے سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں ، اس سے پہلے شوکت عزیز کے دور میں بھی ایک بہت بڑا سکینڈل سامنے آیا تھا جس کی تفصیل سے پوری قوم واقف ہے جبکہ بدقسمتی سے گندم اور چینی جیسی بنیادی ضرورت کی اشیاء کی ملکی ضروریات سے قطع نظر ملک میں موجود مافیا(درآمد و برآمد کنندگان کے علاوہ متعلقہ وزارتوں کے اندر موجود مبینہ بدعنوان افراد پرمشتمل ) پہلے چینی اور گندم کی پیداوار ملکی ضرورت سے سرپلس دکھاتے ہوئے برآمد کرنے کے لائسنس حاصل کرکے نہال ہوجاتا ہے اور ضرورت سے زیادہ برآمد کرکے بعد میں ملک میں انہی اشیاء کی قلت کا ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر درآمد کرنے کے پرمٹ حاصل کرکے یہی چیزیں مہنگے داموں واپس منگوا لیتے ہیں یوں نہ صرف عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے بلکہ اپنی تجوریاں ایک بار پھر بھرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ، جب تک بدعنوانی کا یہ راستہ بند نہیں کیا جائے گا عوام کودونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔