نومبر کاوسط ہوچکاہے سردی تو ابھی اپنے جوبن پر نہیںآئی تاہم وطن عزیز میں شادیوں کا سیزن شروع ہوچکا ہے ۔ والدین کو بھی احساس ذمہ داری ہے اور وہ اپنے بچوں کی شادی کروانے میں بروقت اقدامات کررہے ہیں۔حکومت اور سرکاری ادارے بھی خوب مستعدنظر رکھے ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا ریوینیو اتھارٹی(کیپرا) نے اپنی خصوصی ٹیمیں بنادی ہیں اور ان ٹیموں کوہدایات دی ہیں کہ صوبہ بھر کے سارے شادی ہالوں کے اعداد شمار اکٹھا کریں اور شادی ہالوں پر مخصوص قسم کا ٹیکس نہ صرف لگایا جائے بلکہ ٹیکس جمع کرنے کے لئے بھی خصوصی انتطامات کریں۔ کیپرا کی خصوصی ٹیمیں ہر ایک شادی ہال خود جاکر انہیں سروس ٹیکس کے بارے میں سمجھائیں گے اور ہر شادی ہال کی انتظامیہ کو سکھائیں گے کہ وہ کیسے ٹیکس شادی والے لوگوں سے لیں گے اور اس سروس ٹیکس کو کس طرح کیپرا کے دفتر میں جمع کروائیں گے۔ کیپرا کی خصوصی ٹیمیں اس بات کی بھی یقینی بنائیںگی کہ صوبہ بھر کے تمام کے تمام شادی ہال کپرا میں رجسٹرہوں اور نہ صرف ہر ایک شادی پر سروس ٹیکس لوگوں سے لیں اور اسے کیپراکے دفتر میں جمع بھی کروائیں ۔ ہمارے یہاں شادیوں پر سب سے زیادہ سج دھج کر خواتین آتی ہیں اور ہر قسم کونبھانے کی انہیں چاہت بھی ہوتی ہے مرد بے چارے تو زیادہ سے زیادہ ایک اچھا سوٹ پہن کر شادی پر پہنچ جاتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ایک ڈرائیور کا کردار نبھاتے ہیں ۔ شادی کی ساری تقریبیں خواتین کی ہی ہوتی ہے لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ کیپرا کی وہ ڈائریکٹر جنرل جس نے یہ سارے ٹیکس لگانے اور جمع کروانے کے احکامات دیئے ہیں وہ خود بھی ایک خاتون ہیں اس طرح انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہر شادی میں خواتین کتنا خرچہ کرواتی ہیں تو اتنے خرچہ میں چند ہزار روپے شادی ہال کے ٹیکس کے طور پر دے دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس خاتون ڈائیریکٹر جنرل نے عوام اور بالخصوص شادی ہال کی انتظامیہ سے التجاء کی ہے کہ وہ ٹیکس جمع کرکے صوبہ کی تعمیر و ترقی کے لئے کام کریں ۔ جتنا زیادہ ٹیکس جمع ہوگا وہ سارے کا ساراصوبہ خیبر پختونخوا کے عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں پر استعمال ہوگا۔
ایک طرف جہاں ہمارے صوبہ کی حکومت ، شادی ہال والے اور والدین تو اپنا اپنا فرض اداکرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ دوسری طرف جو لوگ غیر شادی شدہ ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شادی شدہ لوگ مزے سے زندگی گزار رہے ہیں گرما گرم اور تازہ ناشتہ ، دوپہر کا کھانا اور رات کو کھانے کے بعد میٹھا بھی مل جاتاہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب شادی ہوگی تو ترقی بھی دوڑکرآئے گی کیونکہ انہوں نے کافی پرانا اور گھسا پٹا محاورہ سن رکھا ہے ” ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے” ہم اس محاورہ سے صد فیصد متفق ہیں۔ کچھ من چلوں نے اسے تبدیل کرکے یوں کر دیا ہے ”اور ہر ناکام مرد کے پیچھے ایک سے زیادہ عورتوں کا ہاتھ ہوتا ہے” لیکن قسم لے لیں ہم اس ترمیم شدہ مہاورہ سے متفق ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ میرا قاری مجھ سے پوچھنے کا حقدار بھی ہے اور مجاز بھی کہ کیوں ؟ تو بھائی اس کی عام اور سادہ سی وجہ ہے کہ ہم بھی ایک شوہر ہیں اور ترقی کے بھی خواہاں ہیں لہٰذا کسی قسم کا خطرہ مول لینے کاکوئی ارادہ نہیں ہے۔ کامیابی ہمارے بھی قدم چومے اس امید سے بیگم کے ساتھ اکثر سمجھوتا کرتے رہتے ہیں اور بیگم سے درخواست کرتے ہیں کہ اے عورت ہمارے پیچھے چل تاکہ ہم بھی کامیاب مرد کہلا سکیں ۔
ہم سے لاکھ درجے وہ چھڑے اچھے ہیں کہ جو شام کو اگر بھوکے بھی سو جائیں تو بھی کوئی پروانہیں لیکن ہمیں تو اپنے ساتھ اس بیگم کا اور بچوں کے پیٹ کی دوزخ بھی بھرنی ہے جو چٹکی بھر آٹے سے نہیں بھرنے والی اور یوں صبح شام مزدوری میں لگے رہتے ہیں شادی شدہ زندگی کیا خاک منائیں گے۔ اس میں بھی غلطی سراسر ہماری ہے کیونکہ شادی سے پہلے سب نے سمجھایا ”شادی نہ کرنا یارو پچھتائو گے ساری لائف” مگر ہم نہ مانے کچھ نے کہا ”شادی ہے لڈو موتی چور کا جوکھائے وہ بھی پچھتائے جو نہ کھائے وہ پچھتائے” ۔ لیکن اب تجربے کے ساتھ ہم آج اپنے آنے والے نوجوانوں کو پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ سمجھارہے ہیں لیکن وہ ہیں کہ سمجھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ کچھ یہی حال ہمارابھی تھا جب ہم جوان تھے تب ہماری سمجھ شریف نے منطق بنائی کہ بھئی ہماری قسمت میں اگر پچھتاوا ہی لکھا ہے تو کچھ کئے بغیر ہی کیوں پچھتایا جائے کیوں نہ شادی کرلیں اور خوب مزے سے پچھتائیں ۔ غیر شادی شدہ لوگوں کا جنون ہے کہ سردی کا یہ شادیوں کا سیزن گزر نہ جائے اور ان کی شادی اس دفعہ ہوجائے اسی طرح والدین بھی اس سوچ میں ہیں کہ اگر اس سال شادی نہ کرسکے تو اگلے سال مہنگائی اور بڑھ جائے گی اور پھر اب جتنے لوگوں کو بلارہے ہیں شاید ان کی تعداد آدھی کرنی پڑے تو یوں جن دوست اور رشتہ دارکو نہ بلایا گیا وہ ضرورناراض ہوجائیں گے کہ بھئی ہماری دفعہ تو پورے کا پوراخاندان شادی پر آئے تھے اور اب اپنی باری آئی تو کنجوسی کررہے ہیں حالانکہ یہ لوگ یہ احساس ہی نہیں کررہے کہ شادی والے گھر پر کتنے خرچے ہورہے ہیں اور اوپر سے اب شادی ہال پر لگنے والا ٹیکس بھی انہیں ہی بھرنا ہوگا۔
Load/Hide Comments