ایک ایسے وقت میں جب تحریک انصاف کی قیادت اپنے ہی کارکنان کی جانب سے تنقید کی زد میں ہے کہ وہ عمران خان کی رہائی اور مینڈیٹ کی واپسی کے لئے تحریک چلانے میںپوری طرح کامیاب نہیں ہو پائے ایسے وقت میں بانی پی ٹی آئی کی جانب سے کم وقت اور مہلت کے ساتھ احتجاج کی کال دینا کارکنوں اورقیادت کے لئے بڑا چیلنج اور ان کو امتحان میں ڈالنے کے مترادف ہے مستزاد یہ کال سینئر رہنمائوں کے بجائے عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کی وساطت سے دی گئی ہے۔علیمہ خان نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ عمران خان نے فائنل کال دے دی ہے اور ایک ایک کارکن کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ پورے پاکستان میں نکلنا ہے۔بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کو اسلام آباد کی جانب فائنل کال کے بعد دیکھنا یہ ہو گا کہ اس مرتبہ پی ٹی آئی اپنی حکمت عملی میں ایسی کیا تبدیلی لائے گی کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس کے مطالبات سننے پر مجبور ہوجائیں۔مبصرین سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں کارکنوں کو متحرک کرنا اور حکومت کو ٹف ٹائم دینا پی ٹی آئی کی قیادت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ماضی قریب کے تحریک انصاف کے احتجاج کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا نظر آتا ہے کہ جب تک لاکھوں لوگ نہیں نکلیں گے حکومت پر اس احتجاج کا کوئی اثر نہیں ہوگاایسے میں ایسا نظر آتا ہے کہ بظاہر اب کی بار بھی جلسہ یا احتجاج ہوگا اور ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ موجودہ صورت حال اور قیادت کے ساتھ لوگ بھی نکلنے کو تیار نہیں ہو سکتے کیونکہ لوگوں نے ووٹ دے کر اپنا فرض پورا کر دیا تھا مگر منتخب لوگ ووٹرز کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکے اس لئے وہ ان سے مایوس ہیں۔تحریک انصاف کے احتجاج کی حتمی کامیابی کی منزل کا تعین زیادہ مشکل نہیں ایک عمودی نظر میں اس کا مقصد اسیر بانی کی رہائی ہی ہو سکتی ہے لیکن ایسا مشکل اس لئے نظر آتا ہے کہ ان کی رہائی کا واحد راستہ احتجاج اور دبائو نہیں اور نہ ہی بار بار جیلوں کی سلاخیں توڑ کر بانی کی رہائی کی بھڑکیں ہوسکتی ہیں بلکہ اس کا راستہ قانونی جنگ لڑ کر جو طویل سیطویل تر ہو سکتی ہے جس کے لئے اعصاب کی مضبوطی اور انتظار کی کیفیت کی طوالت دونوں کا بڑا عمل دخل ہو گا یا پھر ڈیل کے ذریعے ڈھیل کاحصول ہے جس کے لئے بانی پی ٹی آئی بظاہر تیار نہیں البتہ 26ویں ترمیم کے موقع پر نرم روی بعدازاں عسکری قیادت کی مدت ملازمت بارے فیصلے پر دھواں دھار تنقید سامنے نہ آنے اور عدالتوں سے مسلسل ملنے والے ریلیف سے کچھ معاملات کے طے پانے کا شبہ کرنے کی گنجائش نظر آتی ہے لیکن یہ کسی درجے تک ہی ہوں گے اور حتمی معاملات اورخاص طور پر بانی پی ٹی آئی کی رہائی ہی سے اس کی تکمیل ہو گی مگرایسا کچھ نظر نہیں آتا بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ واقعی حتمی کال ہوگی اور تحریک انصاف کی جیل سے باہر کی کمزور اور بکھری قیادت اور کارکنوں کا ان پرمتزلزل اعتماد کے باوجود اس کال کی لاج رکھی جائے گی علیمہ خان کی سیاسی معاملات سے عدم آگاہی اور کم اثری پارٹی قیادت کی بجائے ان کے ہاتھ میں معاملات دیئے جانے کا تاثر اور کنی کترانے والی قیادت اور عہدیداران اس کال کی کامیابی کے لئے کتنے کوشاں ہوں گے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا پرجوش قیادت میسر آئے تو تحریک انصاف کے کارکنوں کا جوش برقرار ہے مگر بار بار منزل سے پہلے راہیں جدا کرنے پر ان کا حوصلہ پرجوش نہ رہنا اور ناامیدی کا شکار ہوجانا وہ سنگین عمل ہے جس کا شفافی علاج اور توڑ نکالے بغیر ایک مرتبہ پھرمیدان عمل میں کودنے کا عمل ارد گرد کی صورتحال کا حساب کتاب اور راست اندازہ لگائے بغیر ترپ کا پتہ پھینکنا ہو گا جس میں تاش کی بازی پلٹ بھی سکتی ہے اور ترپ کا پتہ بے کار بھی جا سکتا ہیجس کے بعد مزید پتے کھیلنے اور پتہ ہاتھ لگنے کے لئے کافی وقت انتظار کرنا پڑ سکتا ہے دیکھا جائے تو احتجاج کے کافی پتے پھینکے اور کھیلے گئے مگر شہزادے سے لے کر بیگم اور بادشاہ تک کے پتے موثر ثابت نہ ہوسکے اب آخری پتہ اڈیالہ جیل سے براہ راست پھینکا گیا حالات کے جائزے سے ایسا لگتا ہے کہ بالاخر مذاکرات کا راستہ ہی بچے گا لیکن کمزور پوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا سیاسی طور پر کامیابی کا ذریعہ نہیں ہوا کرتا اس اعلان کے بعد اس پر عملدرآمدشروع کرنے کے د ن کے درمیان اگرمذاکرات کا راستہ اپنایا جاتا ہے تو فریقین کو بہتر راستہ مل سکتا ہے ایک مرتبہ دعوت مبازرت قبول کرلی جائے تو پھر طرفین کو کڑے امتحان سے گزرنا ہو گا جس کے نتائج ہر دو جانب غیر یقینی اور ملک کے لئے ا چھے نہیں ہوں گے بہتر راستہ یہی ہو گا کہ معاملات کو ناقابل واپسی کی لکیر تک نہ لے جایا جائے اور بند گلی سے نکلنے کی راہ تلاش کی جائے جس میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بھی بھلائی ہے۔