اپنے ایک کرم فرما اور ہائی کورٹ کے سابق جج نے باہمی ملاقات میںپارلیمنٹ سے منظور کی جانے والی آئینی ترامیم ، جج صاحبان کی تقرری ، عدالتی بنچوں کی تشکیل اور سیاسی و انتخابی معاملات کے بارے مختلف فیصلوں پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ وہ رنجیدہ بھی تھے کہ مُلک میں عدالتی نظام اور جج صاحبان کو ہی موضوع بنا کر ہر سطح پہ ایک غلط تاثر قائم کرنے سے اعلیٰ عدالتوں کے وقار کو مجروع کیا جا رہا ہے ۔ مَیں نے واضح کیا کہ عوام ایک عرصہ سے عدالتی نظام میں پائے جانے والے نقائص پر شکایت کرتے چلے آ رہے ہیں ، یہاں تک کہ بہت سے جج صاحبان نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے لیکن ایسی کون سی رکاوٹیں اور وجوہات ہیں کہ جسے دُور نہیں کر سکتے اور انصاف مانگنے والے مشکل میں رہتے ہیں ۔ ایک بیوہ بھی جب مجبور ہو کر پنشن کے لیے کسی عدالت کا رخ کرتی ہے تو اُسے حاضری دینے میں کئی سال لگ جاتے ہیں ۔ اسی طرح کرایہ دار سے اپنا مکان خالی کرنے اور مہینوں کا کرایہ وصول کرنے میں بھی عدالت چار پانچ تک کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی ۔ یوں لگتا ہے کہ اصلاح ناممکن ہو چکی ہے ۔
برسوں پہلے کہا جانے لگا کہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی سب سے بڑی ججوں کی تعداد میں کمی ہے، پھر تعداد بڑھائی گئی بلکہ تنخواہیں زیادہ کر دی گئیں مگر تاخیر ختم نہ ہو سکی ۔ آج ایک چھوٹے ضلع میں بھی سول ججوں کی تعداد سات آٹھ ضرور ہوتی ہے مگر ہر عدالت کے سامنے ہجوم رہتا ہے اور آئے روز مستغیث حاضری کی نئی تاریخ لے کر واپس جاتے ہیں ۔ ایک بزرگ وکیل کہا کرتے کہ مقدمے کا فیصلہ کرنے میں تاخیر کی وجہ ججوں کی کمی نہیں بلکہ قوت ِ فیصلہ کی کمی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک جج کا سب سے بڑا وصف اور شخصی قابلیت اُس کا انصاف پہ مبنی فوری فیصلہ کرنا ہے ۔ اب اعلیٰ عدالتوں میں بھی ججوں کی تعداد زیادہ کی جا رہی ہے کہ وہاں ایک مدت سے آئینی مقدمات پہ ہی توجہ رہتی ہے جبکہ دیگر نوعیت کے مقدمات کی بڑی تعداد التوا کا شکار ہے ۔ یہاں بھی اگر ایک کی بجائے چار جج آ جائیں اور وہ قوت فیصلہ کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو تعداد بڑھانے کا کیا فائدہ ہوگا ۔ ایک فاضل وکیل نے اپنے مضمون میں لکھا کہ ہم اس عدالتی نظام سے عدل کی توقع رکھتے ہیں جبکہ یہ قانون کے نفاذ کا نظام ہے جو معاملات کو قانون کے مطابق مکمل کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں جج صاحبان کسی بھی معاملہ پر فیصلہ سے کہیں زیادہ قانونی نظیر بنانے میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ ہمارے ہاں قابل اور زیرک وکلاء کی کمی نہیں ہاں مگر وہ سیاسی اعتبار سے یا میڈیا پہ معروف نہیں ہیں ، ان کے قانونی دلائل اور نقطۂ نظر سے ججوں کو فیصلہ کرنے میں آسانی رہتی ہے ۔ ایک اچھا مواد پیش کیا جائے تو فیصلے بھی درست ہوتے ہیں ۔ یہ مشاہدہ بھی ہوا ہے کہ عدالت میں ضابطہ کار کی تبدیلی ضروری ہو چکی ہے ، اس میں عدالتی اختیار کے سبب متعلقہ اداروں اور لوگوں کے رد عمل میں مثبت تبدیلی آئے گی اور ایک اکثریت کو مقدمات میں تاخیر ہونے سے بھی چھٹکارا مل جائے گا ۔ مُلک کے عدالتی نظام میں سپریم کورٹ کسی مقدمہ میں اپیل سننے اور آخری فیصلہ کرنے کی مجاز ہے مگر متوازی اپیل کے ذریعے کئی غلط فہمیاں اور خرابیاں بھی پیدا ہوئیں ۔ ماضی میں بہت سے معروف مقدمات کی سماعت کے دوران جج صاحبان کے
تبصروں اور بعد ازاں فیصلوں پر ان کی یہ سوچ بھی نمایاں ہونے لگی کہ سیاسی معاملات میں جوڈیشل مداخلت کوئی قباحت نہیں رکھتی ۔کسی سیاسی وابستگی سے بالا قانونی ماہرین نے پاناما گیٹ کے کیس کی مثال دی ہے کہ سماعت کے
دوران ہی پارلیمانی نظام کی آئینی مختاری تحلیل ہوتی دکھائی دی۔ ہوا بھی یہی کہ عوام کی منتخب شدہ قیادت ختم کر دی گئی ۔
آئین میں جنرل ضیا کے شامل کردہ آرٹیکل 62 اور 63 نے انتخابات کے لیے موجود سخت قوانین سے بھی زیادہ صادق اور امین ہونے کی شرط لگا دی۔ اگرچہ ان اصلاحات کی مکمل تشریح تو قصداً نہیں کی گئی مگر مُلک کے وزیر اعظم ان آرٹیکلز کے تحت نا اہل ہوتے رہے ۔ یوں تو پارلیمانی تاریخ سے ظاہر ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک ہمارے قریباً سبھی وزرائے اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکے ۔ اس نظام کی ستم ظریفی ہے کہ کسی ایک کیس میں صادق اور امین کی اصلاحات کو غیر حقیقی اور آئینی تقاضوں کے بر عکس قرار دیا گیا جبکہ دوسر ے کیس میں ان غیر حقیقی شقوں کو استعمال کرتے ہوئے فیصلے صادر کیے گئے ۔ یہ بات قانون کی عالمگیریت کے خلاف بھی نظر آتی ہے کہ جب تک کسی کا گناہ ثابت نہ ہو ، اُسے محض مجرم سمجھنے اور برسوں پہلے کسی جرم کی پاداش میں ثبوت کے بغیر سزا دینا جائز نہیں ۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ کو فعال قانون سازی کرنی ہو گی ۔ آئین میں حالیہ ترامیم جس تیزی سے منظور کی گئیں ، اس پر جھگڑے بھی ہوئے اور اب بھی اس کی چند شقوں پر آئینی ماہرین اور سیاسی جماعتیں تحفظات رکھتی ہیں ۔ لیکن عوام کا مسّلہ جلد انصاف کی فراہمی ، زیر التوا مقدمات کے فوری فیصلے اور ایک ایسا شفاف عدالتی نظام ہے جس پر اُنہیں اعتماد ہو ، سچ کو مفاد پر فوقیت حاصل ہو اور کسی جج کی جانبداری پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے ۔
Load/Hide Comments