حزب اختلاف کی جماعتیں روز اول سے حکومت کو اکثریت کی نہیں ا قلیت کی حکومت قرا ر دیتی آرہی ہیں خصوصی نشستوں کا معاملہ معلق ہونے کے باعث پارلیمان ادھورا ہے ایسے میں خود حکومتی اتحاد جماعت کے سربراہ بھی شکایات کے دفتر کھول کر بیٹھیں تو حکومت کی وقعت کیا رہ جاتی ہے اس سوال کا جواب مشکل نہیں مگر برسر اقتدار طبقہ خود ہی اس سوال پرغور کرنے کے لئے تیار نہیں بلاول بھٹو زرداری کا بیان ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہی کا عین مصداق ہے یا پھر وچوں وچوں کھائی جا اور اوتوں رولا پائی جا سے اس کی مشابہت نظر آتی ہے جبکہ خود حکمران بھی اپنے اقتدار اور حکومت سے زیادہ خوش اور پراعتماد نظر نہیں آتے جس ملک میں قدم قدم پر مسائل اور حکومت کا یہ عالم ہو اسے چیلنجز درپیش ہوں اس ملک میں مضبوط حکومت کے ساتھ مضبوط حزب اختلاف کی ضرورت مسلمہ ہے مگر یہاں نہ تو مضبوط حکومت دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی حزب اختلاف اپنے جمہوری کردار پر توجہ مرکوز کرتی نظر آتی ہے طرفہ تماشا یہ کہ ہر دو کی ترجیحات میں ملک و قوم کو مسائل و مشکلات سے نکالنے میں کردار کی ادائیگی کی بجائے اپنی اپنی ترجیحات کی ایک فہرست ہے ۔عوام کی ان سے مایوسی کی بنیادی وجہ ان کا مایوس کن رویہ ہے جس کے باعث اب وطن عزیز میں جمہوریت جمہوری نظام اور جمہوری سیاست وقعت کی حامل نہیں رہی جس طرح بھاری پتھر کے نیچے دبے ہونا ان کا مقدربنا دیا گیا ہے اس کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ خود جملہ سیاسی جماعتوں کا کردار و عمل ہے جو جمہوری عمل کو بھی جمہوری رکھنے پرتیار نہیںاور ڈگڈگی پر ناچنا ان کو زیادہ بھاتا ہے حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود بلاول بھٹو نہ صرف شکوہ کناں ہیں بلکہ انہوں نے تو حکومت کے خلاف باقاعدہ چارج شیٹ ہی پیش کردی ہے کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ وفاق میں نہ عزت دی جاتی ہے ، نہ سیاست کی جاتی ہے، نہ معاہدے پر عمل ہو رہا ہے۔ بلاول نے کہا کہ قانون سازی پر پوری طرح سے مشاورت ہونی چاہیے، یہ عجب ہے کہ پہلے فلور پر بل آئے پھر مجھے کاپی دی جائے، سیاست عزت کے لیے ہوتی ہے، سیاست میں ناراضی نہیں ہوتی، حکومت کے ساتھ ناراضی کا سوال ہی نہیں، دنیا میں حکومت اتحادیوں کے ساتھ معاہدوں پر عمل کرتی ہے، ہم دیکھیں گے کہ معاہدے پر کیا عمل درآمدہوا ہے۔ حکومت دہشت گردی کے مقابلے کے لیے کیا کر رہی ہے، عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت باتیں نہیں عمل کرکے دکھائے۔ اس دوران بلاول حکومت کی انٹرنیٹ پالیسی سے بھی نالاں نظر آئے اور کہا کہ انٹرنیٹ اسپیڈ پر حکومت جھوٹ بول رہی ہے ، وی پی این کی بندش پر مشاورت نہیں کی گئی ، مشورہ کرتے تو سمجھاتے، فیصلہ کرنے والوں کو وی پی این کا پتا ہی نہیں۔وفاقی حکومت سے خیبر پختونخوا کی حکومت حقوق کے معاملے میں کبھی خوش نہیں رہی جب خود حکومتی اتحاد کی شکایات اور حکومت کے حوالے سے خیالات یہ ہوں تو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے تحفظات اور صوبے کے حقوق کے حوالے سے تحفظات کا اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے بلوچستان بدقسمتی سے ہر دور میں مزید محرومیوں کا شکار صوبہ رہا ہے پنجاب بڑا صوبہ ہونے کے باعث مقتدر رہا ہے اور ملکی سیاست و بیورو کریسی وہیں کے حکمرانوں کے گرد گھومتی ہے جس سے قطع نظر سیاسی منظر نامے اور ملکی مسائل و حالات کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کسی طور پر بھی ملکی و عوامی مسائل کے حل کی صلاحیت کی حامل نظر نہیں آتی اگرچہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات ہی کو ایک طرف رکھ کر نئے انتخابات کا مطالبہ ہو رہا ہے اور ویسے بھی خصوصی نشستوں کے حوالے سے آنے والا کوئی فیصلہ ان انتخابات اور اس کے نتیجے میں قائم حکومت کو مزید جھکا دینے کا باعث بن سکتا ہے لیکن اس کے باوجود دیکھا جائے تو ملک بار بار کے نئے انتخابات اور بار بار کے متنازعہ انتخابی نتائج اور جانبداری کے الزامات کا متحمل نہیںبن سکتا جس سے بچنے کے لئے ملک میں متفقہ قومی حکومت قائم کرکے سیاسی مخاصمت اور سیاسی بنیادوں پر چلنے والے معاملات کی اونٹ کو کسی کروٹ بٹھانے کے لئے ناگزیر نظر آتا ہے جس کے بعد ملک میں حالات کو مکمل سازگار بنا کر اگر انتخابات کرائے جائیں تبھی ملک میں سیاسی و حکومتی استحکام اور سویلین بالادستی کے دور کا آغاز ہوسکتا ہے بہتر ہوگا کہ سیاستدان حکومت اور حزب اختلاف دونوں کا کردار مرکز اور صوبوں میں حصہ داری کے طور پر نبھاتے ہوئے تحفظات کابھی ساتھ اظہارکرنے کی بجائے اصل اور سنجیدہ مسائل کے حل کے لئے باہمی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک و قوم کی فلاح کا سوچیں اور ان حالات سے ملک کو نکالنے میں ہر کوئی مثبت کردار کا مظاہرہ کرکے حکومتی ٹرین کو استحکام کی پٹڑی پرڈالنے میں کردار ادا کریں اور ملک میں مستحکم اور غیر متنازعہ حکومت کی بنیاد کے ساتھ مضبوط حزب اختلاف کی بھی بنیاد پڑے جو ملک اور جمہوری عمل کو چلانے کے لئے ناگزیر ہے۔