پاکستان میں ہر برس نومبر اور دسمبر میں سموگ کی وجہ سے کاروبار زندگی متاثر ہوتا ہے اور یہ مسئلہ ہر برس شدت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے ۔ انڈیا اور کئی دیگر ممالک میں بھی یہ مسئلہ درپیش ہے ۔ یہ فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے جو انسانی اور مشینی بے احتیاطی کے نتیجہ میں پیدا ہورہی ہے ۔ دنیا بھر میں شہروں کے لیے جو پلاننگ کی کی جاتی ہے اس میں فضائی آلودگی کے تدراک کے لیے بھی کام کیا جاتا ہے ۔مگر ہمارے ہاں شہری منصوبہ بندی سرے سے کی ہی نہیںجاتی ۔ پھر ہمارے ہاں فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے کوئی عملی قوانین نہیں ہیں ۔ جتنے کارخانے ہیں ، خشت بھٹیاں ہیں ،فیکٹریاں ہیں وہ سب مضر صحت دھواں فضا میں چھوڑتی ہیں ۔ سموگ کے سیزن میں انڈین پنجاب اور ہمارے پنجاب میں مختلف فصلوں کی باقیات کو کھیتوں میں ہی جلایا جاتا ہے جس سے کثیر تعداد میں ذرات ہوا میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ جو انسانی صحت کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہوتے ہیں اور اس سے ان علاقوں میں حد نگا ہ بھی صفر ہوجاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے کاروبار زندگی اور ان علاقوں میں سفر عملاً ممکن نہیں رہتا ۔ دہائیوں پہلے یہی حال لاس اینجلس اور میکسیکو سٹی کا ہوا کرتا تھا ۔جہاں سموگ کی وجہ سے کاروبار زندگی عملاً معطل رہتا تھا ۔ پھر امریکی حکومت اور وہاں کی یونیورسٹیوںکے محققین نے اس کا حل نکالا اور اب یہ سموگ بہت کم ان علاقوں کی زندگی کو متاثر کرتی ہے ۔ پاکستان کی فضاؤں میں خصوصاً ان شہروں میں جہاں سموگ کا زور ہے اس وقت مضر صحت ذرات کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ ان مضر صحت ذرات کی وجہ سے انسانی پھیپھڑوں اور آنکھوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے ۔ایک ایسے ملک میں جہاں حفظان صحت کے اصولوں پر کہیں بھی عمل درآمد نہیں ہوتا ۔ خوارک کی تمام اشیاء میں ملاوٹ ہے وہاں کی فضا میں بھی اگر زہر پھیل رہا ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا کتنا نقصان ہوگا ۔سموگ کی وجہ سے لاہور ، ملتان ،پشاور اور دیگر شہروں کے ہسپتالوں میں مریضوں کا رش بڑھ گیا ہے ۔ یہ مسئلہ میٹنگوں سے حل نہیں ہوگا ۔ اس کو مستقبل قریب میں روکنے یا کم کرنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے ۔ ہماری حکومتیں نمائشی کاموں پر اربوں روپے ضائع کرتی ہیں ۔ اپنے تعیشات اور سہولیات کے لیے کھربوں کا خرچہ کیا جاتا ہے ۔ اپنے ذاتی مراعات کے لیے کھربوں کا انتظام کیا جاتا ہے مگر چوبیس کروڑ سے زیادہ عوام کی صحت کے لیے پیسے نہیں ہوتے ۔ اور جو پیسے اس ضمن میں ہم دنیا سے خیرات اور امداد یا پھر قرض کی صورت میں لیتے ہیں وہ ان کاموں پر خرچ نہیں ہوتے ۔ ماحولیاتی آلودگی اور اس خطے میں حدت کی تیزی سے بڑھتی صورتحال اتنہائی تشویش کا باعث ہے ۔ اس سے بچنے کے لیے موثر اقدامات نہ کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ اگر حدت بڑھنے کا عمل اسی طرح چند برس جاری رہا تو اگلے چند برسوں میں آپ کے گلیشئیر پھٹنا شروع ہوجائیں گے ۔ جس سے وہ تباہی آئے گی جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا ۔ آپ کے پہاڑی علاقے پتھر کے دور میں پہنچ جائیں گے اور آپ کے تمام شہری علاقے زیر آب آجائیں گے ۔ اور پھر دریاؤں میں پانی سوکھ جائیگا ۔ جس سے شہری علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح سینکڑوں فٹ نیچے چلی جائے گی ۔ اس وقت بھی بیشتر شہروں کے لیے پینے کا صاف پانی کم پڑ رہا ہے ۔ یہ سب کچھ ہماری غفلت اور کرپشن کی وجہ سے ہورہا ہے ۔ جنگل بے دریغ کٹ رہے ہیں ۔ درخت لگائے نہیں جارہے اس ضمن میں وہ غضب کی کرپشن کی جاتی ہے کہ اس کا بیان ممکن نہیں ہے ۔ جو جو محکمے اس کام پر مامور ہیں وہ کوئی عملی کام نہیں کرتے صرف سیمینارز ، کانفرنس اور ورکشاپ کرنے سے یہ مسئلے حل نہیں ہوں گے ۔اس لیے کے ان پر کروڑوں روپے خرچ کرکے پیسے ضائع کیے جارہے ہیں ۔ اس حوالے سے ٹھوس قانون سازی اور پھر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں کچھ قوانین پہلے سے موجود ہیں لیکن ادارے ان پر عمل درآمد کروانے میں مکمل ناکام ہیں ۔ چین نے اس مشکل پر قابو پایا ہے ۔ جہاں کارخانوں اور مشینوں کی تعداد ہم سے کئی لاکھ گنا زیادہ ہے ۔ جہاں گاڑیوں کی تعداد بھی ہم سے کئی لاکھ گنا زیادہ ہے ۔ مگر وہاں قانون پر عمل درآمد ہوتا ہے ہمارے ہاں قانون صرف کاغذ پر لکھے لفظ رہ گئے ہیں ۔ گزشتہ برس پنجاب کی حکومت نے اس سلسلے میں جن اقدامات کا فیصلہ کیا تھا ان میں کسی پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا ۔ اس وقت پاکستان بھر کے خشت بھٹوں میں ٹائر اور پرانے جوتے اور پلاسٹک جلاکر اینٹیں پکائی جارہی ہیں مگر ان کو منع کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ کسی بھی کارخانے میں مضر دھواں کو پروسس کرنیوالے پلانٹ نہیں ہیں ۔ گاڑیوں کو چیک کرنے کا کوئی منظم طریقہ کار نہیں ہے ۔ فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے پر پابندی کا کوئی عملی انتظام نہیں ہے ۔ استعمال شدہ موبل آئل ہر جگہ استعمال کیا جارہا ہے ، جنگلات میں اپنی چوری چھپانے کے لیے ادارے اور لوگ جنگلوں کو آگ لگا دیتے ہیں ۔ ایسے میں ہم یہ توقع رکھیں کہ اس ملک میں ماحول خود بخود ٹھیک ہوجائے گا تو یہ ممکن نہیں ہے ۔ اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان سرفہرست ملکوں میں آتا ہے ۔ لیکن دوسرے ممالک نے جہاں اس کا خطرہ تھا اپنا بندوبست کرلیا ہے ۔ ہماری حکومتیں اس کو امداد حاصل کرنے کا غیبی ذریعہ سمجھ کر شاید خاموش ہیں ۔اگر یہی صورتحال رہی تو چند برسوں میں پاکستان سیلابوں کی تباہ کاریوں کی زد میں آجائے گا ہمارا نظام مواصلات جو پہلے سے بہت زیادہ خراب ہے وہ مکمل تباہ ہوجائے گا اور لوگ بے گھر ہوجائیں گے ۔ لوگوں کی فصلیں اور زرعی زمینیں کاشت کے قابل نہیں رہیں گی اور لوگوں کے کاروبار تباہ ہوجائیں گے ۔ انسانی قیمتی جانوں کا نقصان ہوگا اور جن جن علاقوں میں مویشی پالے جاتے ہیں وہاں ان کو زندہ رکھنا ممکن نہیں رہے گا ۔ ایسی صورتحال آنے سے پہلے ہی ہماری حکومتوں کو کچھ کرنا ہوگا ۔سموگ کی یہ عفریت لاہور اور کچھ دیگر شہروں کی شکل بگاڑ دے گی اور لوگ ان شہروں رہنے کو ترجیح نہیں دیں گے اور جو کھربوں روپے ان شہروںکی تزئین و آرائش اور ترقی پر لگائے گئے ہیں وہ بیکار جائیں گے ۔ اس سموگ کی وجہ سے ہماری موٹر ویز بھی بند ہوجاتی ہیں ۔ ہمارے ائیر پورٹس بند ہوجاتے ہیں اور اس سے مجموعی طور پر ان شہروں کے شہریوں کے اوسط عمر میں بھی کمی واقع ہورہی ہے اور سینے ، گلے اور آنکھوں کے امراض میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے ۔ اگر ہمارے ارباب اقتدار و اختیار میکسیکو سٹی اور لاس اینجلس کے اس سلسلے میں کیس سٹڈیز اٹھا کر پڑھ لیں اور پھر ان پر اسی طرح عمل درآمد کرلیں تو اس مسئلہ سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے ۔ اور عالمی عدالت انصاف میں جاکر بھارت کو بھی پابند بنایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے کسانوں کو فصلوں کی باقیات کھیتوں میں جلانے پر پابندی لگائے اس لیے کہ ماحولیاتی آلودگی ایک گلوبل مسئلہ ہے اور اس پر دنیا کی اقوام ایک معاہدے کے تحت پابند ہیں ۔ گرین گیسوں کے اخراج کے معاہدے میںسموگ کا باعث بننے والے عوامل کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔ مگر اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو اپنے فارن آفس کے ذریعہ متعلقہ فورم سے رابطہ کرنا ہوگا ۔