”پشاور میں چلتے پھرتے جراثیم خانے”

وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی آمین گنڈاپور کی زیر قیادت نشے سے پاک پشاور مہم کے سلسلے میں ساتھ ساتھ ایچ آئی وی ایڈز اور ایچ سی وی پازیٹو کی تصدیق بھی ہوئی ہے ۔خیبر پختونخوا میں ایچ آئی وی،ہپٹائٹس اور تھیلیسیمیا کنڑول پروگرام کے فراہم کردہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ2023میں یہاں 898ایچ آئی وی پازیٹو کیس رجسٹر ہوئے جبکہ2022میں ایک ہزار سے زیادہ مریضوں کا اندراج ہوا تھا۔صوبے میں رجسٹرڈ ایچ آئی وی پازیٹو مریضوں کی مجموعی تعداد7000 تک پہنچ چکی ہے ان میں سب سے زیادہ افراد پشاور میں رہتے ہیں۔یاد رکھئے ایچ آئی وی مریض جسمانی رطوبتوں یعنی غیر محفوظ جنسی تعلقات،ایک ہی سرنج یا سوئی کے زیادہ افراد پر استعمال،انتقال خون ، حمل اور چھاتی کا دودھ پلانے کے زریعے وائرس دوسرے افراد کو منتقل کرسکتے ہیں۔اس صدی میں جنسی امراض میں ایک سب سے زیادہ خطرناک اور مہلک مرض ایڈز کا اضافہ بھی ہوا ہے جس سے پوری دنیا
لرزہ براندام ہے۔غلط کاریوں کے نتیجے میں لاحق ہونے والے ان امراض کے ہوتے ہوئے اس نئے مرض کی وبا سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی بدکاریوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور ان کی بیراہ روی حد سے متجاوز ہوچکی ہے۔مرض ایڈز اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پشاور بچوں کے لئے ہر طرح برائیوں کا گڑھ بن چکا ہے یہاں پر بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہو رہا ہے،بچوں کے جنسی ونفسیاتی استحصال ہورہا ہے۔یاد رہے قدرت ہر بے اعتدالی کی سزا دیتی ہے
ایڈز بھی جرم سنگینی کے اعتبار سے انتہائی سخت سزا کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے ۔دوسری جنگ عظیم سے پہلے آتشک اور سوزاک اور دیگر جنسی امراض تقریبا ناقابل علاج تھے،معالجین کی رائے میں ان کا بہترین علاج ان سے بچنا ہی تھا لیکن پنسلین کی ایجاد نے ان امراض کا زور توڑ دیا ورنہ ان امراض نے بھی انسانوں پر بڑا قہر ڈھایا تھا۔اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ بیکٹیریا کے زریعے پھیلنے والے
جنسی امراض تو علاج پذیر ہیں لیکن ایڈز جیسے امراض جنسی جو وائرس سے لگتے ہیں کم از کم ابھی تک قطعا ناقابل علاج ہیں،ایچ آئی وی نامی وائرس سے پھیلنے والا یہ مرض جو بنیادی طور پر جسم کے مدافعتی نظام ہی کو لے بیٹھتا ہے،دنیا بھر میں اب تک ایک لاکھ انسانوں سے زیادہ کی بھینٹ لے چکا ہے،یہی حال دیگر امراضِ جنسی کا بھی ہے مثلآ آتشک یا کلامیڈیا میں مبتلا نصف سے زیادہ خواتین اور کچھ مردوں میں ان کی قطعا کوئی علامت نظر نہیں
آتی،انہیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ مبتلائے مرض ہیں اور دوسروں میں یہ مرض منتقل بھی کرسکتے ہیں۔علامتوں سے محروم یہ دونوں امراض آگے چل کر بالخصوص خواتین سے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت چھین لیتے ہیں۔
2007سے آج تک مجھے یہ شہر قریب سے دیکھنے کا موقع ملا،پھولوں کا خوبصورت شہر پشاور جسے اب پھولوں کا شہر نہیں کہا جاسکتا،مختلف مست کر دینے والی خوشبوں میں اب بارود کی بو رچ گئی ہے،یہاں ہر پس منظر دھواں دھواں دکھائی دے رہا ہے ۔یہاں اقوام سابق والی تمام برائیاں موجود ہیں ۔بے حیائی کا چلن عام ہے،جسم فروشی کا دھندہ عروج پر ہے ،گھناونے جنسی جرائم وجود میں آ چکے ہیں ۔معصوم بچے بھی بداخلاقی سے محفوظ نہیں ،شہر پشاور کے مختلف علاقوں میں منشیات کے عادی گندگی کے ڈھیروں ،فٹ پاتھ،پلوں کے نیچے اور ریل کے پٹری کے آس پاس زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔ان میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو ملک کے دوسرے صوبوں سے آئے ہیں کیونکہ ان افراد کا کہنا ہے کہ پشاور میں نشہ دیگر شہروں سے سستا مل جاتا ہے۔ابادی کے علاہ بہت بڑی تعداد میں افغان گاڑیاں بھی شہر سے گزرتی ہیں جس سے شہر کی فضا مزید آلودہ ہو رہی ہے ۔انتظامیہ بھی بے بس دکھائی دیتی ہے ۔پشاور شہر کی ایک نسل ہے کہ جو جگنو کو دیکھتے ،مٹھی میں قید کر کے جوان ہوئی اور آج کی نئی نسل
صرف کتابوں اور ویڈیوز میں ہی جگنو کو دیکھ سکتی ہے ۔2018میں پشاور دنیا کا بارہواں آلودہ ترین شہر رہا،شاید جگنوں کے شہر پشاور میں ناپید ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے ۔جگنووں کو سبزہ چاہیے جو بد قسمتی سے شہر پشاور میں اب بہت کم ہوچکا ہے ۔بے پناہ آبادی اور آلودگی کی وجہ سے کئی قسم کے حشرات الارض اور پرندے اب پشاور میں ناپید ہو چکے ہیں۔اس شہر کی تباہی کے باوجود ہمارے حکمران آج بھی یہ جھوٹا دعوی کر رہے ہیں کہ پشاور کی عظمت رفتہ کو بحال کر یں گے۔میرے خیال میں شہر کی زندگی نئے اور ترقی یافتہ زمانے کا ایک خوبصورت عذاب ہے۔جس کی چکا چوند سے دھوکا کھا کر لوگ اس میں پھنس تو گئے لیکن ان کی ذہنی اور جذباتی رشتے آج بھی اپنے ماضی سے جڑے ہیں۔وہ اس بھرے پرے شہر میں پسری ہوئی تنہائی سے نالاں ہیں اور اس کی مشینی اخلاقیات سے شاکی۔جب چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوگا تو رہیب سنڑوں دارالامان اور پناہ گاہوں میں غیر اخلاقی وغیر قانونی سرگرمیاں جاری رہیں گی ۔اس پر انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اس صورت حال کے پیش نظر لے دے کر یہی ایک صورت رہ جاتی ہے کہ ان امراض میں مبتلا ہی نہ ہونے کا عزم کرلیا جائے اور اس کی واحد صورت یہی ہے کہ جنسی تعلقات کے معاملے میں سخت احتیاط اور ضبط سے کام لیا جائے۔اج کل بے حیا لڑکیاں خاص کر پشاور میں وہ کچھ کرتی نظر آتی ہیں کہ انڈیا اور مغرب میں بھی پسند نہیں کیا جاتا اور ہم غیرت مند عوام خاموش تماشائی بیٹھے ہیں۔اللہ کرے وزیراعلی صاحب کا یہ ڈرگ فری پشاور مہم آگے بھی ایسا ہی چلے ورنہ روز روز چلتے پھرتے جراثیم خانوں میں اضافہ ہوگا۔

مزید پڑھیں:  عوامی بہبود کے منصوبے