بدقسمتی سے ملکی سیاست میں سیاسی مکالمہ پر اسٹیبلشمنٹ سے سودے بازی یا پھر دما دم مست قلندر ترجیحی رحجان اور اس پر عملدرآمد سیاسی گرداب یا پھر مقدمات سے چھٹکارے کا نسخہ سمجھ لیاگیا ہے ۔ بنگلہ دیش طرز کے انقلاب سے متاثر ذہنوں کے اندازے کی غلطی یہ نظر آتی ہے کہ ان کی زمینی حقائق پر نظر نہیں پھر بھی اگر اسے پرکھنا ہی تھا تو نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کے واقعے پر ہونے والا احتجاج وہ موقع تھا کہ اس کا رخ شاہوں کے محلات کی طرف ہونے سے دما دم مست قلندر کے منتظرین کی آس پوری ہونے کا موقع تھا مگرایسا کچھ نہیں ہوا جس کے بعد اندازہ لگانے والوں کو نہ خنجر اٹھے گا نہ تلواریہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں کے تاثر تک پہنچنے میں آسانی ہوتی۔ وطن عزیز میں تحریک سے قبل ہوم ورک کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے بھی راہ و رسم ہونے کا رواج رہا ہے نیز کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے پہلے وقتوں میں کراچی اور بعد کے وقتوں میں لاہور کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے تحریک انصاف کو قبل ازیں خیبر پختونخوا اور تخت لاہور کی حکمرانی کے طاقت پر” ستائیس کلو میٹر کی” کی وفاقی حکومت سے ٹکرائو کا تجربہ ہی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا سے بار بار فیض آباد ڈی چوک اور مینار پاکستان کی طرف بھر پور اور ”پروسائل” مراجعت کا بھی ناکام تجربہ بھی ماضی کی بات نہیں مگر اس مرتبہ کی کال چونکہ حتمی اور مرو یا مارو کے فارمولے کے تحت کی ہے اور اس طرح کی بعض تیاریوں کی باز گشت بھی ہے ایسے میں حالات سے ڈر لگتا ہے اور ملک کی مستقبل کے حوالے سے خدشات اور بدگمانیاں بڑھ جاتی ہیں مگر یہ سوچنا حکمرانوں اور سیاستدانوں کا کام نہیں سیاستدان باہم مکالمہ پر ہر گز آمادہ نہیں بلکہ غیر سیاسی قوتوں سے ہی روابط کی سعی میں ہیں یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ اڈیالہ جیل سے ایسا ہی عندیہ آتا رہا ہے تاہم دوسری جانب کی صورتحال مسلسل برعکس ہی ہے برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتار سابق وزیر اعظم اور بانی پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)عمران خان کی خواہش کے باوجود پاکستانی فوج ان سے مذاکرات یا ڈیل کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔برطانوی اخبار گارجین کی رپورٹ میں سینئر عسکری ذرائع کے حوالے سے دعوی کیا گیا ہے کہ پاکستانی فوج کا عمران خان سے ڈیل یا مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں جبکہ عمران خان جیل میں ہی فوجی قیادت سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔گارجین کے مطابق اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کو ان کی قانونی ٹیم کے ذریعے سوالنامہ ارسال کیا گیا تھا، جس کے جواب میں بانی پی ٹی آئی نے بتایا کہ گزشتہ سال اگست میں گرفتاری کے بعد سے ان کا فوج سے کوئی ذاتی رابطہ نہیں ہوا۔تاہم انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے معاہدہ کرنے سے انکار نہیں کریں گے، حالانکہ اس سے قبل وہ فوج کو اپنی حکومت کے خاتمے اور گرفتاری کا ذمے دار قرار دے چکے ہیں۔عمران خان نے گارجین کو بتایا کہ جہاں تک فوج کے ساتھ ڈیل کا تعلق ہے تو کوئی بھی بات چیت ذاتی فائدے یا پاکستانی جمہوری اقدار کے منافی سمجھوتے کے بجائے اصولوں اور عوام کے مفاد پر مبنی ہوگی، انہوں نے کہاکہ وہ اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے عمر بھر جیل میں رہنے کو ترجیح دیں گے۔ ایک پائیدار تصفیہ صرف سوچ سمجھ کر اور اس بات پر غور و فکر سے حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ہماری تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہماری قومی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے سے بیٹھنے اور بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے معاملات کو بہت آگے لے جا چکے ہیں۔پی ٹی آئی اپنے حریفوں کے ساتھ بات چیت کے لیے آگے بڑھنے کے لیے اپنے حریفوں کے ساتھ مشغول ہونے سے باز رہی۔ اس کے بانی کا تازہ ترین پیغام، جو جیل سے جاری کیا گیا ہے، ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ پارٹی صرف موجودہ حکومت کے ہینڈلرز سے مذاکرات کرے گی۔ دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کی قیادت میں اور پیپلز پارٹی کی حمایت یافتہ حکمران اتحاد نے پاکستانی جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کو دھچکا پہنچایا ہے۔ اس سے بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے اور قواعد پر مبنی مذاکرات کے امکانات کو نقصان پہنچا ہے یہ بات قابل فہم ہے کہ پی ٹی آئی ایک آخری کوشش کرنے کا راستہ کیوں چن رہی ہے جب اس کی کامیابی کا امکان زیادہ واضح نہ ہو۔اس کی قیادت یکسو نہ ہو اور احتجاج کے لئے بھی تیاری کی حالت کچھ متاثر کن نہ ہو گروپ بندی اور پوری تیاری اور ہوم ورک نہ ہونے کے باوجود دما دم مست قلندر کا انتخاب صحیح فیصلہ ہوسکتا یا نہیں اس کا فیصلہ وقت ہی نے قرنا ہے اس کے باوجود اس کے بانی نے بہت پہلے مشکل راستے کو آگے بڑھانے کا انتخاب کیا تھا۔ جو بار بار تجربات کی کسوٹی پر موثر ثابت نہ ہو سکی ایسے میںاس طرح کا انتخاب اس سے زیادہ صبر و تحمل کا تقاضا کرتا ہے جتنا کہ ان کی پارٹی نے حال ہی میں دکھایا ہے۔پی ٹی آئی بہت کچھ حاصل کرنے کی توقع نہیں کر سکتی۔ شاید اسے پہلے اپنے گھر کی ترتیب درست کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔