فتویٰ پر سیخ پائی

وزارت داخلہ نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کو غیر قانونی وی پی این بلاک کرنے کی ہدایت کردی ہے جبکہ وی پی این کی رجسٹریشن30نومبر تک مکمل کرنے کی بھی تلقین کی گئی ہے ۔ دوسری جانب اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کا استعمال غیر شرعی قرار دے دیا ہے ۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل علامہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے وی پی این کا استعمال غیر شرعی قرار دیا اور کہا کہ حکومت و ریاست کو شرعی لحاظ سے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ برائی اور برائی تک پہنچانے والے تمام اقدامات کا انسداد کرے لہٰذا غیر اخلاقی اور توہین آمیز مواد تک رسائی کو روکنے یا محدود کرنے کیلئے وی پی این کی بندش شریعت سے ہم آہنگ ہے انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ایسے ذرائع اور ٹیکنالوجیز کے استعمال پر موثر پابندی عائد کی جائے جو معاشرتی اقدار اور قانون کی پاسداری کو متاثر کرتے ہیں ۔ڈیجیٹل ذرائع کی بندش او روی پی این کی رکاوٹ کے معاشی وا قتصادی طور پر غیر نافع اوررکاوٹ ہونے کے حوالے سے ان سطور میں قبل ازیں بھی کئی مرتبہ بات ہو چکی ہے اس وقت اس حوالے سے بحث مطلوب نہیں بلکہ محولہ فتویٰ پر سوشل میڈیا پر علماء کرام کے خلاف جوطوفان بدتمیزی برپا ہے اس کی وجہ طاقتوروں پر بس نہ چلنے کا غصہ ادھر اتارنے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اصولی طور پر علماء نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے ڈیجیٹل ذرائع کی بندش اور وی پی ا ین کی وکالت ہوتی ہو علمائے کرام نے اس ذریعے کے ناجائز استعمال پر رائے دی ہے جسے بنیاد بنا کر توہین آمیزی کی کوئی گنجائش نہیں بہرحال بعض عناصر کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنا غصہ اس طرح اتارنے کی شہرت رکھتے ہیں علمائے کرام کے فتویٰ کوایک طرف رکھتے ہوئے اگر ہر مسلمان صرف اس کسوٹی پراپنے عمل کو پرکھے کہ ہر وہ عمل جس کے افشاء ہونے پر شرمندگی و خجالت کا احساس ہو اور ہر وہ کام جو باعث حجالت ہونے کے باعث چھپا کر کرنے کی ضرورت پڑے اس کا شمار ممنوعات میں ہوتا ہے ظاہر ہے ڈیجیٹل میڈیا اور وی پی این کا کاروباری اور احسن مقاصد کے لئے استعمال نیز اس کا جائز حد تک سیاسی مقاصد کے لئے استعمال اس فارمولے کے تحت ممانعت میں نہیں آتا اخلاقی حدود اور دائرہ کار میں اس کا استعمال ہو سکتا ہے جہاں حدود سے تجاوز کا معاملہ ہو وہاں قدغن اور ممانعت کاحکم لاگو ہوگاایسے میں حکومت کی جانب سے ممانعت کی ہدایت اور قانون کی خلاف ورزی اگرچہ احسن نہیںبہرحال یہ فرد کی صوابدید ہے کہ و ہ حکومتی احکامات اور پابندیوں کی پیروی کرتا ہے یا نہیں شرعی طور پر ممانعت اور سختی کا حتمی ا طلاق علیحدہ معاملہ ہے جس سے شاید ہی کسی کواختلاف ہوبنابریں جانے انجانے میں معاملے کو سمجھے بغیر خواہ مخواہ اس طرح کے پراپیگنڈے میں آنے سے ہوشیارہونے مثبت اقدامات اختیار کرنے کو اچھا اور برائی کو برا سمجھنے کی ضرورت ہے دونوں کو اکٹھا کرکے علمائے کرام کا استہزاء ان کا نہیں خدانخواستہ دین اسلام کی تعلیمات کا استہزاء ہے بلکہ گمراہی کا راستہ جو کوئی معمولی بات نہیں۔

مزید پڑھیں:  صوبے کی ترقی کے تقاضے