حافظ نعیم کے الزامات کی حقیقت !

جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے الزام عائد کیا ہے کہ حکمران پہلے اداروں کو تباہ کرتے ہیں اور اس کے بعد ان کی بولیاں لگاتے ہیں، اپنے ایک بیان میں حافظ نعیم نے نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ حکمرانوں کیخلاف جدوجہد شروع کر کے انہیں عہدوں سے ہٹائیں ،نوجوان ملک کااصل سرمایہ ہیں اور انہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں،ملکی خزانوںپر سانپ بن کربیٹھنے والے حکمرانوںکونوجوان جدوجہد کے ذریعے معزول کریں، انہوں نے کہا کہ 2 فیصد ایلیٹ طبقہ وسائل کو ہڑپ کر رہا ہے جبکہ ملک کے وسائل عوام پر ہی خرچ ہونے چاہئیں، انہوں نے کہا کہ حکمران پہلے اداروں کو تباہ کرتے ہیں پھر ان کو بیچنے کیلئے بولیاں لگاتے ہیں، جہاں تک حافظ نعیم الرحمن کے الزامات کا تعلق ہے اس ان کیساتھ جزوی اتفاق تو کیا جا سکتا ہے تاہم مکمل طور پر ان کے بیانئے کو قبول نہیں کیا جا سکتا، دراصل حافظ صاحب کا اشارہ ملک کے دو اہم ترین اداروں پاکستان سٹیل ملز اور پی آئی اے کی جانب ہے جن کو ماضی کے تقریباً ہر دور میں غلط منصوبہ بندی سے تباہی اور بربادی کا شکار کیا گیا، اس میں صرف مختلف حکومتوں کا ہی کردار نہیں ہے بلکہ ان پر مسلط کئے جانیوالے اہم عہدیداروں کا بھی ہاتھ ہے جبکہ سابقہ دور میں ایک وفاقی وزیر کے پی آئی اے میں خصوصاً اس کے پائلٹوں کے بارے میں ایک انتہائی منفی بیان سامنے آنے کے بعد اس ادارے کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی اور عالمی سطح پر اس کی پروازوں پر پابندی لگا کر اسے بے دست و پا کر دیا گیا ،یہاں تک کہ ایک منافع بخش ادارے کو خسارے کا شکار کر کے بربادی سے دوچار کر دیا گیا اور اب اسے فروخت کرنے کیلئے بولیاں طلب کی گئیں تو شرمناک حد تک کم ترین بولی لگا کر اس کی شکست وریخت سے دوچار کرنے کی شروعات کر دی گئی، حالانکہ بعد میں پائلٹوں کی کے حوالے سے ” نااہلی ” کے الزامات بڑی حد تک غلط ثابت ہوئے مگر جو ہونا تھا وہ ہو گیا، اسی طرح سٹیل ملز کی نجکاری پر بھی کئی سوالات سوال اٹھتے رہے ہیں، ان تمام کی ذمہ داری نہ صرف سیاست دانوں بلکہ ان پر مسلط کردہ” بیوروکریسی ” پر عائد ہوتی ہے ،بہرحال حافظ نعیم کے بیانئے سے پورا اتفاق بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اب بھی اگر ضروری تدابیر کی جائیں تو ان اداروں کو بچایا جا سکتا ہے اس لئے بہتر ہوتا کہ اگر حافظ صاحب تباہ ہوتے ہوئے اداروں کی بحالی کیلئے ماہرین سے مشاورت کر کے تجاویز دیتے اور ملکی اداروں کو بچانے کی فکر کر تے۔

مزید پڑھیں:  جنرل(ر) فیض حمید کا کورٹ مارشل