احتجاج اور آواز دوست

تحریک انصاف کی آمدہ اتوار کو اسلام آباد کے چاروں طرف سے گھیرائو کے لئے تقریباً پندرہ لاکھ افراد لانے کا ہدف مقرر کرکے تیاری کر رہی ہے لیکن حسب سابق اس کا انحصار پنجاب جیسے بڑے صوبے اور احتجاج کی کامیابی پر منحصر لاہور کو مقرر کرنے کی بجائے جرگہ ہال وزیر اعلیٰ ہائوس پشاور کرنے کی غلطی کی جارہی ہے اولاً یہ کہ خیبر پختونخوا کی قیادت ماضی میں خواہ جس قدر بھی موثر رہی ہو پشاور سے کسی سیاسی تحریک کی کامیابی کی کوئی مثال نہیں دوم یہ کہ جرگہ ہال میں ہونے والی تقریریں اور عزائم کا اظہار سرکاری تقریریں اور مال سرکارپر انحصار کے تاثر ات کا باعث ہوتی ہیں جبکہ سیاسی جدوجہد کی کامیابی کا انحصار زور بازو اور عزم صمیم پر ہوتا ہے پی ٹی آئی کی قیادت کی کال پر کارکنوں نے جس قدر گرمجوشی سے لبیک کہنے کی مثال قائم کی ہے اس سے توکسی کوبھی انکار نہیں لیکن عمران خان کے جیل جانے کے بعد سے تاایندم قیادت کارکنوں کی امیدوں پر پورا اترنے میں پوری اور واضح طور پر ناکام رہی ہے اور یہ وہ کمزوری ہے جو 24نومبر کے سب سے چیلنج کے حامل احتجاج کی کال کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوسکتی ہے اب تحریک انصاف کی قیادت جس نئی حکمت عملی کی ترتیب کا عندیہ دے رہی ہے اس کی حقیقت و سنجیدگی تو اگلے اتوار ہی کو سامنے آئے گی البتہ قیاس ہے کہ تحریک انصاف امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کے دور میں اسلام آباد میں احتجاج میں کامیابی کی طرح کا کوئی انقلابی منصوبہ مرتب کرے گی لیکن اس وقت کے برعکس اس وقت کے تناظر میں اس طرز کی منصوبہ بندی خطرناک اور اس کی کامیابی کا امکان کم ہو سکتا ہے نیز اس منصوبہ بندی اور موجودہ میں فرق بھی ہے کہ اس وقت جماعت اسلامی کے کارکن جس طرح مختلف راستوں سے نکل کر اچانک اسلام آباد میں نمودار ہوئے ان کی منصوبہ بندی کامیاب احتجاج ریکارڈ کروانے کا تھا جس میں وہ کامیاب ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے احتجاج کی منصوبہ بندی طویل المدت ہے علاوہ ازیں اس کی قیادت اس وقت جماعت اسلامی کی انقلابی قیادت کے مقابل کہیں کم تردرجے کی ہے البتہ اس کے کارکنوں کے جوش کا ان کے ہم پلہ ہونے کا امکان غالب ہے ۔ اس سے قطع نظر جبکہ مخالف سمت کی ہوا تیز ہو پندرہ لاکھ تو درکنار پانچ لاکھ افراد بھی صرف اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو سکے تو انتظامیہ کے لئے ان کو سنبھالنا تقریباً ناممکن ہو گا تحریک انصاف کی قیادت کو اس کا بخوبی علم ہو گا کہ موافق سمت چلنے والی ہوائوں کے دور میں بھی وہ ”ٹارگٹ”پوری نہیں کر سکے تھے جس کی بناء ہر وعدہ”ایفا” کرنے سے معذرت کرلی گئی تھی اب ایک ایسے وقت جب ہر طرف جوش اور چڑھائی کی تیاریاں جاری ہیں تحریک انصاف ہی کے ایک قائد نے شکوہ آمیز دانشمندانہ مشورہ دیا ہے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ان کا40سالہ سیاسی تجربہ ہے۔ پارٹی قائدین سے گزارش ہے سیاسی جماعتوں کو انگیج کریں، آئین کی بالادستی کے لیے کم سے کم ایجنڈے پر یکسوئی بنانے کی کوشش کریں۔انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹوزرداری سے گزارش ہے فیصلہ کریں وہ کہاں کھڑا ہونا چاہتے ہیں؟ جمہوری قوتوں کے لیے اہم وقت ہے وہ کہاں کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم خیال سیاسی جماعتوں کو مشترکہ نکات پر ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے۔بلاول بھٹو مسلم لیگ ن پر تنقید کے بجائے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اجلاس بلا کر جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔24نومبر کے احتجاج سے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ24نومبر کی کال پر عمران خان کی حمایت کرتے ہیں۔پوری قوم، وکلا، نوجوان 24نومبر کو باہر نکلیں، حقوق کی آواز بلند کریں۔ کارکن 24نومبر کو پرامن رہیں، قانون ہاتھ میں نہ لیں۔تحریک انصاف کے سرد گرم چشیدہ اس رہنما کے بیان کی اہمیت اور مشورے کا صائب ہونا اپنی جگہ مگر ان کی بات پر کان دھرنے کا ماحول نظر نہیں آتا تحریک انصاف جس دمادم مست قلندر کی تیاری میں ہے اگر اس میں کامیابی نہیں ملتی تو پھر یہ آخری حربہ کی ناکامی بھی ہو سکتی ہے اور پھر اس منزل تک آنے کے لئے خود تحریک انصاف کو ایک طویل دور ابتلاء سے گزرنا پڑے گااس کے باوجود بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کو سنگ میل پھر نظر بھی آئے گی یا نہیں۔اس دوران اگر شاہ محمود قریشی کے مشورے پر پیشرفت کی صورت نکل آئے تو پھر یہ ہر فریق کے حق میں بہتر ہو گا مگر اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  خیبر پختونخوا میں بڑھتا ہوا بدمعاشی کلچر