تاریخ کے سینے میں وہ لمحات ثبت ہیں جب ہلاکوخان کی فوجیں بغداد کی طرف تیزی سے بڑھ رہی تھیں تو بغداد کی اشرافیہ حال مست مال مست کی تصویر بن کر آنے والے طوفان سے بے نیاز ہو کر اس بحث میں مصروف تھی کہ کوا حلال یا حرام؟اور یہ کہ سوئی کی نوک سے بیک وقت کتنے فرشتے گزر سکتے ہیں۔حقیقت میں انہی موضوعات پر سرپھٹول ہو رہی تھی یا یہ محض مؤرخ کی حاشیہ آرائی ہے ؟یہ تو پتا نہیں مگر حقیقی خطرات اور چیلنجز سے بے نیاز اور بے گانہ ہوکر غیر حقیقی مسائل کے پیچھے چھپنے کی ہر روش کی کہانی کا خاکہ اور خلاصہ یہی بنتا ہے جو بغداد کے علماء اور اشرافیہ سے منسوب ہے ۔جب یورش تارتار کا مقابلہ کرنے کی بجائے یہ اشرافیہ بلی سے چوکس اور خبردارہونے کی بجائے کبوتر کی طرح آنکھیں موندنے میں عافیت تلاش کئے بیٹھی تھی اور پھر اس تہذیب کدے پر جو قیامتیں گزر گئیں وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔کوے کے حلال وحرام کی بحث کسی مناسب وقت کے لئے نہ اُٹھا رکھنے کی یہ کہانی اس وقت یاد آئی جب اسلامی نظریاتی کونسل نے بیٹھے بٹھائے انٹرنیٹ سے وابستہ ایپ وی پی این کے حرام ہونے کا فتویٰ دے دیا اور پھر یہ فتویٰ سوشل میڈیا بالخصوص سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر یا ایکس پر اسی حرام وی پی این کے ذریعے مشتہر کیا گیا ۔ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی اکثریت کو علم ہی نہیں تھا کہ وی پی این کس بلا کا نام ہے ۔مختلف حکومتوں نے ملک میں انٹرنیٹ کا بہت سا مواد بلاک کرنے کا کام کیا لوگوں نے ذہنی طور پر اس پابندی کو قبول کر لیا تھا ۔پھر ہوا یوں کہ حکومت کو ٹویٹر سے خطرہ محسوس ہونے لگا اور بدقسمتی سے اس خوف اور خطرے کا تعلق بھی ڈھائی برس قبل ہاتھوں سے دی جانے والی گانٹھ سے تھا جو پوری طاقت ،بے پناہ وسائل ،درجنوں ٹی وی چینل ،بہترین ساکھ کے حامل ذہین اخبار نویسوں اور ٹی وی اینکروں کو بیانیہ ساز مشینیں بنانے کے باوجو د گویا کہ دانتوں سے بھی نہیں کھلنے پائی ۔ہر طرف کنٹرول حاصل کرنے کے باوجود حکمران طبقات نے دیکھا عوامی قبولیت کی قالین ان کے پیروں تلے باقی نہیں رہی ۔پروپیگنڈہ اور بیانیہ سازی ،فیک نیوز ظاہر ہے کہ مریخ کی مخلوق کو متاثر کرنے کی غرض سے نہیں کی جاتی اس کا مقصد اپنی رائے عامہ کو ہمنوا بنانا ہوتا ہے اور جب کسی سسٹم کے پیروں تلے اپنی رائے عامہ کا قالین نہ رہے تو پھر وہی ہوتا جو آج پاکستان میں ہورہا ہے ۔ہر طرف کنٹرول حاصل کرنے کے باوجود حکومت آخر اس نتیجے پر پہنچی کی ملک میں سیاسی بے چینی اورعوام کے دوسری انتہا پر ناراض اور نالاں ہو کر کھڑے ہونے کی اصل وجہ ٹویٹر ہے ۔حالانکہ اگر دائیں بائیں وجوہات تلاش کرنے کی بجائے ایک نظر پاکستان کے تار تار معاشی پیرہن سیاسی طور پر مجروح وجود اور اپنی ادائوں پر ڈال دی جاتی تو شاید نہ مقروض قوم کے بے پناہ وسائل بے اثر بیانیہ سازی پر ضائع کرنے کی ضرورت پیش آتی نہ معاشرے کے اچھے بھلے معروف ومقبول اینکرز ،سکالرز ،موسیقاروں سابق کھلاڑیوں علمائے کرام کواس جنگ میں جھونک کر بے اثر بنانے یا ڈس کریڈٹ کرنے کی نوبت آتی۔حکومت نے ٹویٹر کو فتنہ قراردے کر پابندی کانشانہ بنایا تو ٹویٹر صارفین نے ویب سائٹ تک پہنچنے کے لئے متبادل ذرائع تلاش کرنا شروع کیے تو یہاں ان کا واسطہ وی پی این سے ہوا۔وی پی این کے ذریعے پاکستان شہری خود کو برطانیہ امریکہ بھارت سنگا پور افغانستان یا کسی بھی دوسرے ملک کے شہری کے طور سیٹنگ کرکے ٹویٹر تک رسائی کی پوزیشن میں آنے لگا ۔اس طرح یکایک وی پی این کا استعمال ایک عالم مجبور ی میں پاکستانیوں میں مقبول ہونے لگا ۔ اب کہا یہ جارہا ہے کہ وی پی این کے استعمال سے پاکستان میں ممنوعہ اور مخرب اخلاق یا گستاخانہ مواد کی حامل ویب سائٹس تک بھی رسائی آسان ہوگئی ۔اگر ایسا ہوا ہے توخود حکومت نے ٹویٹر پرپابندی عائد کرکے نوجوانوں کو دوبارہ ہاتھ پکڑ کر انہی ویب سائٹس تک پہنچا دیا جنہیں برسوں پہلے فائر وال اور دوسرے ذرائع سے روک دیا گیاتھا۔اب بندہ وصاحب محتاج وغنی سب ٹویٹر استعمال کرتے ہیں مگر اس کا ذریعہ وی پی این ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف بھی وی پی این کے ذریعے کسی عالمی راہنما کو مبارکبا د دیتے ہیں یا کسی سے تعزیت کرنے پر مجبور ہیں ۔ایسے عالم میںاسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اپنا حصہ ڈال کر وی پی این پر چڑھائی کردی ۔اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کے استعمال کو حرام قرار دیا مگر ہر سرکار زدہ فرمان کی طرح اس حرام تک عوام کو پہنچانے والے حکام کی معاونت ِجرم یا معاونت ِحرام کے مرتکب ہونے کے بارے میں فتویٰ خاموش ہی رہا ۔اب ساری توجہ اس بات پر مبذول ہو کر رہ گئی کہ وی وی این حلال ہے یا حرام ؟اس پر پاکستان کے ایک سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے صحافی ہرمیت سنگھ نے خوشی سے اعلان کیا ہے کہ ان کا وی پی این حلال وحرام کی تمیز سے بالاتر ہے۔