دنیا بھر میں بچوں کو لانے لے جانے کے لیے بسوں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے ۔ مگر دنیا اور پاکستان میں فرق یہ ہے کہ دنیا میں جو بھی گاڑی روڈ پر آتی ہے اس کے پاس روڈ فٹنس سرٹیفکیٹ اور ماحول کو متاثر نہ کرنے کا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے ۔ جبکہ پاکستان میں ناکارہ اور ماحول دشمن بسوں اور گاڑیوں کی اتنی تعداد سڑکوں پر نظر آتی ہے کہ انسان سوچ میں پڑجاتا ہے کہ کیا اس ملک میں انتظامیہ ٹریفک پولیس ، ماحول کی حفاظت کرنے والے محکمے وجود بھی رکھتے ہیں یا نہیں ۔ یہ ہزاروں کی تعداد میں ناکارہ بسیں اس معاشرے اور ملک کی بد انتظامی اور لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ ان بسوں کی حالت ایسی ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ان کو روڈ پر لانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس پر ان کی مینٹینس نہیں ہوتی اور یہ دھواں چھوڑتی ہیں ۔ جس سے ماحول بھی متاثر ہوتا ہے اور اس میں سفر کرنے والے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں فضا اتنی آلودہ ہوچکی ہے کہ اس میں سانس لینا دشوار ہے اس پر یہ غفلت ناقابل برداشت ہے ۔ آبادی کے لحاظ سے انڈیا ہم سے کئی گنا بڑا ہے اور اس کے شہر بھی ہم سے زیادہ گنجان آباد ہیں ۔ لیکن حالیہ برسوں میں انڈیا کے بڑے شہروں دہلی ، کلکتہ ، بنگلور اور بمبئی میں دھواں والی گاڑیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے جس سے ان شہروں کا آئیر انڈکس بہت زیادہ بہتر ہوگیا ہے ۔ انڈونیشیا بھی گنجان آباد ملک ہے وہاں بھی شہروں میں دھواں دینے والی گاڑیوں پر پابندی ہے اب برازیل نے بھی دھواں دینے والی گاڑیوں پر اپنے بڑے شہروں میں پابندی لگا دی ہے ۔ ڈھاکہ اور جکارتہ میں ائیر انڈکس اتنا بہتر ہوگیا ہے کہ چند برس پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ ہم بھی دور عالمگیریت میں رہ رہے ہیں ۔ جو دنیا کرتی ہے اگر ہم صرف اس کو ہی اختیار کریں اور اپنے ملک کی شہریوں کی صحت اور سہولت کو ترجیحات میں رکھیں تو یہاں بھی ماحول بہتر ہوسکتا ہے ۔ پاکستان میں ماحول کو صاف اور بہتر رکھنے کے لیے بے شمار لوگ کام کررہے ہیں ۔ ہزاروں لوگ اس کام پر مامور ہیں اور حکومت سے تنخواہیں اور مراعات حاصل کررہے ہیں ۔ اس ضمن میں اربوں روپے عالمی اداروں اور ملکوں سے امداد اور قرض کی مد میں سالانہ حاصل کرتے ہیں ۔پھر ان اہلکاروں کی مدد کے لیے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے بھی ہزاروں افراد موجود ہیں اور قوانین بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو ماحول کی حفاظت کا کوئی خیال نہیں ہے ۔ اب آتے ہیں کہ دنیا میں جہاں جہاں ماحولیاتی آلودگی تھی وہاں کتنے افراد نے اس کو کنٹرول کیا تو جکارتہ کی مثال لی جائے تو اس کام پر مامور اہلکاروں کی تعداد چالیس ہے اور ان کا کام ماحولیاتی پالیسیوںکو نافذ کرنا ہے ۔ جبکہ اسی کام کے لیے بنگلور کی مقامی حکومت نے اٹھارہ افراد کو مامورکیا ہے ان اٹھاروں اہلکاروں کی مدد سے شہر بھر میں ماحول کو آلودہ کرنے والی تما م گاڑیاں بند کردیں ۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ ان ملکوں میں قانون کی پاسداری ہورہی ہے اور جن لوگوں کو کام پر مامور کیا گیا ہے وہ اپنا کام پروفیشنل طریقے سے کرتے ہیں اور وہ جوابدہ ہوتے ہیں ۔ ماحولیاتی آلودگی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ۔ اور یہ انسانوں کا پیدا کردہ ہے ۔پشاور شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہوگیا ہے اور اس شہر میں آلودگی کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ اس شہر کی آلودگی میں سکولوں اور کالجوں کے بسوں کا بہت زیادہ حصہ ہے ۔ سکولوں اور کالجوں کو ریگولیٹ کرنے والے سرکاری محکموں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان سکولوں اور کالجوں کو پابند کریں کہ وہ ماحول کو آلودہ کرنے والی بسوں کو روڈ پر نہ لائیں اور یہ سرکاری محکمے اور ماحولیات کے محکمے ، ضلعی انتظامیہ ، پولیس مل کر پشاور شہر کو اس آلودگی سے بچا سکتے ہیں ۔ آپ کسی دن کسی بھی بڑے ہسپتال کے ایمرجنسی میں جاکر دیکھیں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ گلے ، کھانسی ، دمے اور آنکھوں کی سوزش کے مسائل لیکر قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں ان تمام بیماریوں کی وجہ یہی آلودگی ہے ۔ اس ملک میں غریب طبقے کے افراد رہائش پذیر ہیں جن کے پاس بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں ایسے میں جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو ان کو اضافی وسائل درکار ہوتے ہیں ۔ جو ان کے پاس نہیں ہوتے اس لیے زیادہ تر غریب لوگ علاج معالجہ کے لیے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا رُخ ہی نہیں کرتے ۔ یوں ہمارے ہاں اوسط عمر دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلہ میں بہت کم ہوتی جارہی ہے اور ہمارے شہری صحت مندی و تندرستی میں بھی دنیا کے دیگر ممالک کے شہریوں سے کہیں پیچھے ہیں ۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے یہ شرح مسلسل بڑھ رہی ہے اس لیے اس پر قابو پانا زیادہ مشکل کام نہیں ہے لیکن اس سے بے توجہی برتنا ایسا ہی ہے کہ ہم اپنے شہریوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں ۔ پشاور شہر میں صاف ہوا اور پانی کا مسئلہ شدت سے سر اٹھا رہا ہے اور جہاں جہاں پانی دستیاب ہے وہ بھی آلودہ ہے اور پینے کے قابل نہیں ہے ۔ یہ مسائل جب قابو سے باہر ہو جاتے ہیں تو ان کا تدارک ممکن نہیں رہتا ۔ ضلعی انتظامیہ اور ان کاموں پر مامور محکمے اور اہلکار اس سلسلے میں اپنی کارکردگی کا جائزہ لے اور حکومت کو بھی اس سلسلے میں سنجیدہ نوعیت کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔روڈ پر مامور ٹریفک کے اہلکار ایسی تمام گاڑیوں کو پابند کریں جو دھواں چھوڑتی ہوں اور گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ دینے والے گاڑیوں کا حقیقی معائنہ کرکے سرٹیفکیٹ جاری کریں ۔ اس لیے کہ اکثر گاڑی دیکھے بغیر پیسے لیکر بھی ہمارے معاشرے میں ایسے کام کرائے جاتے ہیں ۔اگر حکومت مناسب سمجھے تو دنیا کی دیگر ممالک کی طرح ایک بااختیار ٹاسک فورس بنا کر بھی اس مسئلہ کا حل نکالا جاسکتا ہے ۔ اگر سالانہ محکمہ ایکسائز ایسی گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس لینے سے پہلے ان پر لازمی کردے کہ وہ گاڑی کی فٹنس اور دھواں نہ دینے کا سرٹیفکیٹ بھی پیش کریں اور ایکسائز کا عملہ ان گاڑیوں کو باقاعدہ چیک بھی کرے تو بھی اس مسئلہ پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ ہماری نوجوان نسل اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک مہم چلا سکتی ہے کہ جہاں کہیں ایسی گاڑی نظر آئے اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالنا شروع کردیں تو بھی شاید حکام اس مسئلہ کی نزاکت کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں ۔یہ مسئلہ دنیا کا ہے اور دنیا اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہر ہ کررہی ہے مگر ہمارے ملک میں اس مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں دیکھا جارہا ۔حالیہ دنوں میں صدر ، خیبر روڈ اور یونیورسٹی روڈ پر رکشوں پر پابندی ایک قابل تعریف اقدام ہے اس لیے ماحول کو آلودہ کرنے میں رکشوں کا بھی حصہ ہے اور اس سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوتی ہے ۔ ضلع پشاور کی انتظامیہ اگر سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کرے تو یہ شہر مزید خرابی سے بچ سکتا ہے ۔