پنجاب حکومت کے بعد خیبر پختونخو ا حکومت نے بھی آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کے لئے صوبے میں زرعی انکم ٹیکس آئندہ سال سے وصول کرنے کے لیے قانونی ڈرافٹ تیار کرلیا ہے جسے آئندہ چند روز میں اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کر دیا جائے گا واضح رہے خیبر پختونخوا اسمیت تمام صوبوں میں مذکورہ قانون سازی کی شرط آئی ایم ایف نے عائد کی تھی۔ ذرائع کے مطابق زرعی انکم ٹیکس بل کا مسودہ تیار کیا گیا ہے ۔امر واقع یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوںمیں بڑے زمینداروں کے تسلط کی وجہ سے یہ شعبہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہی رہا ہے اور اس وقت تک جب تک کہ آئی ایم ایف نے اسے اپنے نئے 7 بلین ڈالر کے پروگرام کا بنیادی جزو نہیں بنایاگیاکہ صوبے زراعت میں ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ صوبے اپنی ٹیکس وصولی کی کوششوں کو بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کریں ہمارے تئیں قانون سازی اس کا آسان حصہ تھا اصل امتحان ان قوانین کا نفاذ ہے، جو اگلے مالی سال کے آغاز سے شروع ہوتا ہے۔مشکل یہ ہے کہ صوبوں اور یہاں تک کہ ایف بی آر کے پاس بھی زرعی آمدنی کا درست اندازہ لگانے اور اس کے مطابق ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت ناکافی اور محدودہے۔ اس کے علاوہ، زرعی منڈی کا ایک بڑا حصہ رسمی بینکنگ چینلز سے باہر کام کرتا ہے، اور لین دین نقد میں کیے جاتے ہیں۔ زرعی پیداوار کی حقیقی قیمت کا حساب لگانے کے لیے ٹیکس حکام کی استعداد کار میں اضافے کی ضرورت ہوگی۔دوسرازرعی آمدنی کے تعین اور ٹیکس کی وصولی کی ذمہ داری پٹواریوں جیسے ریونیو اہلکاروں کو سونپی جاتی ہے جو اپنی بدعنوانی کے لیے بدنام ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ تباہ حال چھوٹے کسانوں کا ہے جو پہلے ہی مختلف اخراجات وقدرتی آفات سمیت دیگر وجوہ کی بناء پر مشکلات کا شکار چلے آرہے ہیں چھوٹے کاشتکار، جن کی ٹیکس قابل آمدنی مشکل سے ہے ان کے لئے ٹیکس کی ادائیگی اور ان سے ٹیکس کی وصولی دونوں مشکل کام ہیں نیز وطن عزیز میں قوانین کا غلط استعمال اپنی جگہ ایک بڑا مسئلہ ہے خدشہ ہے کہ اس کا استعمال ریونیو حکام اور حکمران جماعتوں کے سیاستدان اپنے مخالفین کے بازو مروڑنے کے لیے کر سکتے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والوں کو اچھی تربیت دی جائے اور وہ فارم کی آمدنی کا صحیح اندازہ لگانے، بدعنوانی اور بھتہ خوری کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے نظام کی تطہیر اور دیگر لوازمات کا خیال رکھا جائے۔دیکھا جائے تو یہ پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہو گا مگر چونکہ یہ آئی ایم ایف کی شرط ہے اس لئے تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود صوبوں نے اس بارے پیشرفت شروع کر دی ہے جسے کامیاب بنانے کی راہ کی رکاوٹیں اور دبائو تو کافی ہوگا اس کے نفاذ سے زرعی پیداوار پرلاگت میں اضافہ اور اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے جس کا بوجھ بالاخر عوام ہی پرپڑے گا جوپہلے ہی مختلف بالواسطہ اور براہ راست ٹیکسوں اور سرچارچز کی ادائیگی سے عاجز ہیں۔