صوبائی دارالحکومت پشاور میں وزیر اعلیٰ ہائوس سے تھوڑے فاصلے پرپریس کلب کے سامنے اپر چترال کے باشندوں نے جس میں خود حکمران جماعت کے عہدیدار بھی بطور باشندگان علاقہ شرکت کرکے سڑک کی تعمیر میں طویل تاخیر و فاقی حکومت کی جانب سے فنڈز کی فراہمی کے باوجود لیت و لعل اور خاص طور پر کام کی بندش کے باوجودایڈوانس میں ٹھیکدار کو ادائیگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیاان کا مقامی نمائندہ صوبائی اسمبلی سے بھی شکوہ شکایات تھیںمظاہرین کا کہنا تھا کہ 28 کلومیٹر بونی بزند روڈ گزشتہ 15 سال سے زیر تعمیر ہے اور یہ سڑک 2010 میں 36 کروڑ روپے کی لاگت سے شروع کی گئی تھی اور اسے 2013 میں پورا ہونا تھا۔ 15 سال گزر گئے اور اس سڑک پر ایک ارب 20 کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں لیکن 28 کلومیٹر میں سے 10 کلومیٹر سڑک بھی پکی نہیں ہوئی ہے۔ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہیوفاقی حکومت کے فنڈز کے 11 کروڑ روپے بجٹ میں سے 9 کروڑ ریلیز ہو چکے ہیں۔مذکورہ رقم سی اینڈ ڈبلیو اور اس کے ایکسین نے متعلقہ ٹھیکیدار کو کام کرائے بغیر ورک پلان سے ساتھ ہی پیشگی ادائیگی کردی جو کہ خلاف قانون اور کرپشن ہی کی ایک شکل ہے۔اگرچہ سخت سردی میں مقامی طور پر اور ہیڈ کوارٹر بونی میں دھرنا اور طویل احتجاج کا کافی طویل سلسلے کا اختتام اس حوالے سے پیشرفت کی امید دلاکر کی گئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محولہ صورت کیوں پیدا کی گئی منتخب نمائندوں اور انتظامیہ کی جانب سے ہراسانی اور دبائو کی مساعی کیوں کی گئیں اونٹ کو اگر اس کروٹ بٹھانا ہی تھا تو بعد از خرابی بسیار کی نوبت کیوں آنے دی گئی یہ سارے سوالات او ر مظاہرین و مقررین کے سوالات و الزامات کا جواب دیئے بغیرپاک دامنی اور عوامی خدمت کا دعویٰ مشکل سے قابل قبول ہوگا جس سے قطع نظر صوبے کے سب سے بالائی حصہ کے نوجوانوں ، ضعفاء اورعوام نے جس عزم کے ساتھ مطالبہ منوانے میں کامیابی حاصل کی صعوبتوں کی پرواہ نہیں کی گئی وہ امید کی ایک ایسی کرن ہے جو شعور و آگہی کے ساتھ حقوق کے حوالے سے سنجیدگی کابھی مظہر ہے جسے نظرانداز کرنا زیادہ دیر ممکن نہیں رہے گا خود برسراقتدار جماعت کے کارکنوں نے عوامی احتساب کاجو عملی مظاہرہ ہے ان کے مظاہرہ جگہ جگہ ہونا چاہئے ہر ضلع اور علاقے میں سیاسی کارکنوںکو بلا امتیاز عوامی نمائندوں سے سوال کرنے اور احتساب پرتوجہ دینی چاہئے جو بہتراور نافع طرز سیاست اور شعور پردال اور منتج ہو گی۔