متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفیر اور مقامی حکام کے درمیان ملاقات میں یو اے ای حکام نے ویزوں کے بندش کی وجوہات کا تذکرہ کیا ہے۔ اماراتی حکام نے بتایا کہ پاکستانی شہری سیاست اور احتجاجوں میں ملوث ہیں، پاکستانی سوشل میڈیا پر عرب امارات حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں اور ان کا یو اے ای میں سوشل میڈیا استعمال مثبت نہیں ہے۔ حکام کا کہناتھا کہ یو اے آئی میں نوکریوں کے خواہشمند بعض پاکستانی امیدوار ڈگریوں کی تصدیق جعلی طریقہ سے کراتے ہیں، کچھ پاکستانی شہریوں نے جعل سازی سے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں ردوبدل کیا۔ اماراتی حکام نے مزید بتایا ہے کہ پاکستانی شہریوں کا چوری، دھوکہ دہی، بھیک مانگنے، جسم فروشی اور منشیات میں ملوث ہونے کا تناسب دوسرے ملکوں سے زیادہ ہے اور یہ تمام ڈیٹا کابینہ اجلاس میں پیش کرنے کے بعد پابندی کا فیصلہ کیا گیا۔محولہ چارج شیٹ سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن من حیث المجموع اسے مسترد اس لئے نہیں کیا جا سکتا کہ بہت سے مندرجات مبنی برحقیقت ہیں امر واقع یہ ہے کہ ٹریول ایجنسیوں اور سیز اپمپلائمنٹ پروموٹرز کے نام پر ویزہ ایجنٹوں کے ذریعے بھاری رقم کے عوض اندھا دھند فروخت جعلی دستاویزات بشمول سفری و طبی وغیرہ کی بھاری رقوم کے عوض تیاری و حوالگی اور جعلی ڈرائیونگ لائسنس سمیت دیگر جعلسازی پر مبنی دستاویزات جب بعوض رقم میسر ہوں تو پھر بیرون ملک جانا عام آدمی کے لئے مشکل اور حاملین رقم کے عناصر کے لئے آسان ہونا فطری بات تھی یہ دھندہ خیبر پختونخوا ہی میں نہیں دیگر صوبوں میں بھی جاری ہے نیز انسانی سمگلنگ کے ساتھ ساتھ نومولود بچوں کی سمگلنگ کادھندہ بھی چلتا رہا ہے جس کا ایک اہم کردار کراچی سے سامنے آیا جس سے قطع نظر منشیات وسمگلنگ اور ہنڈی حوالہ کی رقم کی منتقلی کی مساعی بھی جب ساتھ شامل ہوں اور برسوں سے یہ دھندے جاری ہوں جن کے باقاعدہ مراکز اورایجنسیوں کا نہ صرف سرکاری حکام کو علم ہو بلکہ ان کی ملی بھگت اور سرپرستی ہی میں یہ سب کچھ ہو ہا ہے جن کی ناک نیچے یہ دھندے ہو رہے ہوں او روہ اس کی روک تھام کی ذمہ داری سے غافل ہوں تو پھر کسی ملک سے یہ کیسے توقع رکھی جائے کہ وہ یہ سب کچھ بہت دیر برداشت کرے سعودی عرب میں ایک سکیم کی منصوبہ بندی کرکے جس طرح جعلی پاکستانی پاسپورٹ کے حامل افغانیوں کو لالچ دے کر از خود عتراف کا سامان کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے ایک اندازے کے مطابق اس کے باوجود سعودی عرب میں جعلی پاکستانی پاسپورٹ پر افغان شہریوں کی موجودگی اب بھی کافی سے زیادہ ہے اسی طرح متحدہ عرب امارات خلیجی اور یورپی ممالک میں بھی جعلی پاکستانی پاسپورٹ پر افغان باشندوں کی لاکھوں کی تعداد مقیم ہے جس پر دنیا کی آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب یہ افراد کسی جرم یاپھر کسی واقعے کے باعث پھنستے ہیں اور حقیقت سامنے آتی ہے صرف افغان باشندوںہی کو اس طرح کے واقعات میں ملوث ٹھہرا کر پاکستان کو بدنام کرنے کی ذمہ داری ان پر عائد کرنا حقیقت پسندی نہ ہو گی اس میں خیبر پختونخوا کے باشندوں کی بھی کمی نہیں جبھی توایک دو مخصوص علاقوں کے لوگوں پر توبطور خاص پابندی لگا گئی ہے یو اے ای کے حکام نے پاکستانیوں کے حوالے سے جن شکایات کا تذکرہ کیا ہے اگردیکھا جائے تو یہ چنداں مبالغہ آرائی پرمبنی نہیں اور نہ ہی وہاں کی حکومت اور حکام سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ بلاوجہ کسی ملک کے شہریوں کے کردار کے حوالے سے اس طرح کی شکایات سفارتی سطح پر سامنے لائیں ایک ایسے وقت جب پاکستانی محنت کشوں کو ہنرمندی کے گر نہ آنے اور عدم مہارت کے باعث ویسے بھی ترجیح نہ ملنے کا عمل جاری ہے محولہ فیصلہ اورصورتحال مزید پریشان کن ہی نہیں باعث خجالت بھی ہے مگر ہمارے حکام کو اس کی شاید پھربھی پرواہ ہو اور وہ ملک کو مزید بدنامی کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے یہ دھندہ بند کرنے پر آمادہ ہوں حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حساس معاملے میں جہاں ملکی وقار دائو پر لگ رہا ہوتا ہے ملکی وقار کے تحفظ کی حساسیت رکھنے والوں کا ہاتھ بھی ہولا ہی رہا ہے اگر وہ اپنا کردار نبھا رہے ہوتے تو ہرماہ بعد کوئی نہ کوئی سلاخوں کے پیچھے ہوتا اور لوگ عبرت پکڑتے اب تک تو جو ہونا تھا وہ ہو چکا اگراس کی روک تھام کرنی ہے تو محولہ دھندے اور طریقوں پر شب خون مار کرختم کرنا ہوگا حکومت چاہے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں آئندہ کے لئے اس کا راستہ روکنے کے بعد اب بیرون ملک افرادی قوت بھجوانے کے لئے ان کی ضرورت کے مطابق ہرشعبے میں ہنر مند تیار کرنے ہوں گے اس ضمن میں خیبر پختونخوا میں خاص طور پر ہنر مندی کی تعلیم و تربیت میں انقلابی طورپر اضافہ کرنے کی ضرورت ہو گی جب ہنر مندوں کی کھیپ موجود ہو گی اور وہ بیرون ملک جائے گی تو پھر وہ وہاں جا کر مناسب روزگار کے قابل ہوگی جوخود ان کے اور ملک و قوم دونوں کے لئے بہتر ہوگا اور اگر اسی طرح ویزوں کا ٹینڈرکرکے کامیاب بولی دینے والوں کو بجھوانے کا سلسلہ جاری رہے گا توپھریکے بعددیگرے دیگر ممالک سے بھی اس قسم کے حالات پیش آنے کا خطرہ ہے جس کا ادراک اور تدارک نہ ہوا تو دنیا کے دروازے پاکستانیوں کے لئے بند ہوتے جائیں گے۔