خانگی امور کے ماہرین اس پر اتفاق رکھتے ہیں کہ معاشرے میں طلاق اور خلع میں اضافے کے اہم اسباب میں انٹرنیٹ اور اس سے وابستہ سہولیات کا بڑا عمل دخل ہے اتفاق سے ان دنوں تو وی پی این کی بحثبھی زور و شور سے چل رہی ہے بہرحال عام مشاہدے کی بات یہ ہے کہ معاشرے میں خانگی مسائل اور ازدواجی دوریاں اب معمول بن چکی ہیں جس سے خاندانوں کے خاندان تباہی کے دہانے پر پہنچ رہے ہیں خانگی ناچاقیوں اور دوریوں کی ابتداء کسی بڑے اختلاف سے نہیں ہوتی بلکہ ابتدائی مسائل چھوٹے اور اس قدر ناقابل توجہ ہیں کہ اگر غور کیا جائے تو ان کو با آسانی نظر انداز کرکے اپنی خانگی زندگی کو دائو پر لگانے سے با آسانی بچایا جا سکتا تھا اگر اسے ابتداء ہی میں ختم کر دیا جاتا تو خاندان بکھرنے کی نوبت نہ آتی مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ میاں بیوی اپنی اصلاح کریں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں طلاق اور خلع کے مقدمات کے حوالے سے ایک تحقیق سے محقق نے یہ اخذ کیا کہ اس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل گیمز کا عادی ہونا ہے اس کی مثال دیتی ہوئی خاتون محقق نے لکھا ہے کہ بیوی ڈیجیٹل گیمز پب جی کی عادی ہو جائے تو وہ گھر اور بچوں پر توجہ دینا چھوڑ دیتی ہے جس سے سرد مہری جنم لیتی ہے شوہر اور بچے توجہ نہ ملنے پر دور ہونے لگتے ہیں اور شوہر کے لئے خاص طور پر یہ بات ناقابل برداشت ہو جاتی ہے کہ بیوی پب جی کھیلنے میں مصروف ہوں بچوں کا ہوم ورک نہ ہواور شوہر دفتر سے تھکا ہارا آجائے اور گھر بکھرا پڑا ہو یہ مثال یکطرفہ نہیں زوجین کے بارے میں ہے شوہر بھی ڈیجیٹل گیمز پر زیادہ وقت گزارے اور گھر و بچوں پر توجہ نہ دے بیوی سے سرد مہری اختیار کرکے اور پب جی کو پہلی محبت بنا دے تو بیگم کا آزردہ خاطر ہونا فطری بات ہوگی جب بار بار توجہ دلانے پر بھی شوہر اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کوتاہی کرتا جائے تو نوبت بالاخر ناچاقی اور خلعکو پہنچ جاتی ہے میاں بیوی گاڑی ا دو پہیے ہوتے ہیں جن کی مناسبت نہ ہو تو پھر ظاہر ہے گاڑی ڈگمگانے لگتی ہے ۔ان دنوں یہ ہر گھر کی کہانی بن گئی ہے خود اپنے اگرد گرد یہاں تک کہ اپنے آپ کا بھی جائزہ لیا جائے تو گھر میں مرد و عورت بچے اور والدین سبھی کی باہم دلچسپی اور ہمدردی پر آن لائن سرگرمیوں کی محبت غالب آگئی ہے جتنی دوستی ہم نے فیس بک سے کر رکھی ہے اور جتنا وقت اور دلچسپی اس کی نذر کرتے ہیں اگر اس کا عشر عشیر بھی جوڑے ایک دوسرے کو دیں والدین اپنے بچوں کے معمولات ، حرکات و سکنات پر غور کرنے کی زحمت کریں تو آج یہ نوبت نہ آتی غور کریں تو گویا ہم خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی ازدواجی زندگی کے لئے گڑھا کھودنے میں مسلسل لگے ہوئے ہیں ظاہر ہے ایک نہ ایک دن اس میں گر ہی جانا ہوتا ہے ۔ اب تو بات طلاق اور خلع سے بہت آگے بھی بڑ جاتی ہے طلاق اور خلع بہرال ناپسندیدہ ہونے کے باوجود علیحدگی کا قانونی طریقہ ہیں بدقسمتی سے خیبر پختونخوا جیسے روایتی معاشرے میں دھڑا دھڑ خواتین اپنے شوہروں کو آشنا سے مل کر قتل کروانے لگی ہیں آئے روز کوئی نہ کوئی کہانی اخبارات میں چھپی ہوتی ہے جسے پڑھ کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مرد تو جرائم کرتے ہیں مگر اب عورتوں کے جرائم کی داستانیں سن کر انسان دنگ رہ جاتا ہے ان کہانیوں کو پڑھ کر خود ہی غور کریں کہ خواتین کس قدر جرم کی ذہنیت کی حامل بن گئی ہیں اور بھی کئی کہانیاں سن اور پڑھ رکھے ہوں گے پہلا واقعہ پشاور کا ہے جہاں قاضی کلے میں بیوی نے مبینہ طور پر والدہ اور ماموں کے ساتھ مل کر اجرتی قاتلوں کے ذریعے اپنے برطانوی شہری شوہر کو قتل کروا دیا۔ مقتول برطانیہ سے واپس آیا تھا جسکی جائیداد ہتھیانے کیلئے ملزموں نے اسے راستے سے ہٹایا تاہم پولیس نے کیس ٹریس کرنے کے لئے مقتول کی بیوی و رشتہ داروں کو شامل تفتیش کیا جس کے دوران وہ ملزمان تک پہنچے۔ مقتول انگلینڈ میں کام کرتا تھا اور اس کی کافی جائیداد اور بینک بیلنس تھا جبکہ وہ اپنے رشتہ داروں کو عمر ے کیلئے بھیجنے کے علاوہ ان کی مالی مدد بھی کرتا تھا۔ مقتول کی بیوی، ساس اور بیوی کے ماموںنے جائیداد اور رقم کے لالچ میں آکر اسے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیاواردات کی ماسٹر مائنڈ خاتون تھی۔ اس مقصد کے لئے ملزمہ کے ماموں نے اجرتی قاتل کو 7لاکھ روپے دے کر اس کے سرکا سودا کیا۔جب کہ دوسرا واقعہ پنجاب کا ہے جہاں گھر والوں نے سیالکوٹ بہو کو قتل کرنے اور لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے جلانے کے بعد نالے میں بہا دی سیالکوٹ ہو یا پشاور یا اور کوئی جگہ مرد ہو یا عورت جس جس کو گمراہی کے خیالات آنے لگیں اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں مرد گمراہ ہو کر سیدھے راستے پر آسکتا ہے اس سے امید رکھی جا سکتی ہے مگر عورت گمراہ ہوجائے تو اوپر کی دو مثالیں اس کے لئے کافی ہیں عورت گمراہ ہو جائے توپھر اولاً خود سیدھے راستے کی طرف نہیں آتی اور اگر آنا بھی چاہے تو یہ معاشرہ اس کے کرتوت اور کردار و ماضی یاد کراکے واپس دھکیل دیتی ہے اس لئے عورت کو خا ص طور پر گمراہی کا راستہ اختیار کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے ۔ عورت گمراہی کا راستہ اکیلی اختیار نہیں کرتی اسے مرد کا ساتھ چاہئے ہوتا ہے بھاگنے کے لئے بھی او رکسی مرد کو ٹھکانے کے لئے بھی میں اکثر بچیوں کو مثال دے کر سمجھاتی ہوں کہ بگڑنا ہمیشہ عورت ہی کا ہوتا ہے مر د کا کچھ نہیں بگڑتا مرد کی مثال کانٹے کی ہے اور عورت کی مثال غبارے کی۔ آج کل کی لڑکیاں اس قدر خود سر ہو گئی ہیں کہ راہ چلتے مردوں کا راستہ تنگ کر دیتی ہیں وہ بیچارے ایک طرف سمٹ کر نکلتے ہیں پہلے ہم لڑکیاں دور سے ہی کسی مرد کو آتا دیکھ کر راستہ چھوڑ دیا کرتی تھیں اب معاملہ الٹ چلنے لگا۔یہ سب اور کچھ نہیں اس ڈیجیٹل اور ماڈرن دنیا کی خرافات ہیں ٹک ٹاک نے تو عورت کو اس قدر بے باک بنا دیا ہے کہ بس۔ آج کل کی دنیا میں پہلے کی طرح عورتوں کو اب گھر بھی بٹھانا ممکن نہیں رہا سو کاموں کے لئے عورتیں خود نہ نکلیں تو مرد بیچارے تو کام سے گئے ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر معاملے میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کی جائے خانگی بھلائی کے لئے ضروری ہے کہ جہاں گھر کو وقت دینا ہے وہاں کھیل میں نہ پڑا جائے سوشل میڈیا اور فضولیات ترجیح نہیں بیوی بچے ترجیح ہونے چاہئیں ہر کوئی اپنی ذمہ داری محسوس کرے تو گھروں کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکتا ہے اسی طرح سوشل میڈیا اور سیل فون و دیگر رابطوں کو استعمال ضرور کریں مگر گمراہی کا راستہ اختیار کرنے سے بچیں عورت ہی اگر ولن بنے گی تو باقی بچے گا کیا؟۔