ہندکو زبان کی ایک ضرب المثل ہے کہ سنار کی ٹک ٹک جبکہ لوہار کی ایک ہی ضرب اگرچہ دونوں پیشوں کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ، یعنی سنار اگر ٹک ٹک کرکے سونا کوٹتا ہے تو اس کا فن انہی ہلکی ہلکی ضربوں کا متقاضی ہوتا ہے کیونکہ سونے جیسی قیمتی دہات سے خوب صورت اور دلکش زیورات بنانابہت ہی نازک فن ہے جبکہ لوہار جب تک بھاری ہتھوڑے سے ضرب نہ لگائے تو لوہے کو ضرورت کے مطابق موڑنا مشکل ہو جاتا ہے فانی بدایونی نے جب یہ کہا تھا کہ
عموماً ہم بہت کم بولتے ہیں
اگر بولیں توبس ہم بولتے ہیں
تو اسے دوسروں لفظوں میں لوہار کی بھاری ضربوں کے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے ہاں ابتداء ہی سے بعض مذہبی شخصیات نے اپنے بیانیوں کے ذریعے قائم رکھی ہے جس کی تازہ مثال سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کی شکل میں نظر آرہی ہے یعنی ایک سوشل میڈیا ایپ وی پی این کے حوالے سے مبینہ طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر راغب نعیمی کی جانب سے سامنے آنے والے بیان سے نئی بحث کا دروازہ کھل گیا ہے اور سیاسی رہنمائوں کے بعد نہ صرف اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک رکن وہاج سراج نے اسے کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر راغب نعیمی کے ذاتی خیالات قرار دیتے ہوئے وی پی این کے استعمال کو غیر اسلامی کہنے کو اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ جوڑنے کو غلط کہا ہے اور کہا ہے کہ غیر اخلاقی مواد کو دیکھنے کو مذہبی مسئلہ نہیں کہا جا سکتا ٹیکنالوجی کا صحیح یا غلط استعمال اسے حلال یا حرام بناتا ہے ادھر ایک اور مذہبی سکالر اور نامور مبلغ مولانا طارق جمیل نے بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے فتوے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وی پی این حرام ہے تو پھر موبائل فون کا استعمال بھی حرام ہے کیونکہ اس میں وی پی این کے بغیر ہی اتنی چیزیں ہیں دیکھنے کی مولانا طارق جمیل نے کہا کہ ”وی پی این کو حرام قرار دینے سے متعلق فتویٰ صحیح نہیں ہے یہ تنگ ذہنی ہے یہ درست نہیںہے” اگرچہ اس حوالے سے سیاسی رہنمائوں اور سوشل میڈیا پر بھی بعض لوگوں نے بھی بہت کچھ کہا ہے اور وی پی این کے استعمال پر سامنے آنے والے فتویٰ کو”مسترد” کیا ہے مگر ان بیانات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم صرف دیگر مذہبی شخصیات کے بیانات یا مخالفانہ خیالات سے اس لئے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں کہ اسے مسئلے کے حوالے سے تریاق کا درجہ حاصل ہے یعنی وہ جو کہتے ہیں کہ لوہے کو لوہا کاٹتاہے تو ممکن ہے کہ سیاسی قائدین کی بات کو ”مذہبی” معاملات میں مداخلت قرار دے کر سرے سے ہی رد کر دیا جائے یعنی بقول مظفر وارثی
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے ، بدنام خرد ہوتی ہے!
تاہم اس سارے معاملے کو ہم تاریخ کے پس منظرمیں دیکھنے پر مجبو ہیں اور تاریخ کے اوراق پلٹ کر جائزہ لیا جائے تواس قسم کی ”فتویٰ بازی” کے ڈانڈے اس دور میں جاکر پیوست نظرآتے ہیں جب اہل مغرب نے قرطبہ کے اسلامی تعلیمی ادارے سے حصول علم کے بعد مغرب کی علمی تاریکی کونشاة ثانیہ کے ذریعے اور اسلامی سکالرز کی تحقیقی کتابوں کی خوشہ چینی سے دور کیا اور پرنٹنگ مشین ایجاد کرکے علم و آگہی کو فروغ دینا شروع کیا تب اسلامی دنیا کے تنگ نظر طبقے نے اس کے خلاف فتوے دے کر نئی روشنی سے اسلامی دنیا کو محروم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ، برصغیر کے ”اہل مکتب” کہاں پیچھے رہنے والے تھے جب مغرب میں لائوڈ سپیکر ایجاد ہو گیا تو ہمارے ہاں اسے شیطانی آلہ قرار دیتے ہوئے اس پر اذان دینے کو خلاف شرع قرار دیاگیا مگر پھر وہی دور بھی آیا جب ہر گلی ، ہر محلے یہاں تک کہ شہروں کی نسبت پسماندہ دیہات میں بھی مساجد میں جمعتہ المبارک کے خطبوں کورکھئے ایک طرف پانچ وقت نمازوں سے پہلے خطابت کے لئے اس کا استعمال کچھ اس انداز میں ہونے لگا کہ لوگ مبینہ طور پر عاجز آگئے مگر خطیب حضرات نے ان فتوئوں کو جوایک ڈیڑھ صدی پہلے دیئے گئے تھے نظر انداز کرتے ہوئے مائیکروفون کے ذریعے لائوڈ سپیکر کی مدد سے دن رات وعظ دینا اپنا فر ض اولین سمجھنا شروع کر دیا۔ بلکہ اگر اس صورتحال سے ”عاجز” آئے ہوئے لوگ مولوی صاحب سے شکوہ کرتے تو شکایت کنندہ کی درگت بنادی جاتی ہے یہاں تک کہ اس بے چارے کو ”فتوے” کے خوف سے اپنے مذہب اور عقیدہ بچانے کے لالے پڑ جاتے یعنی بقول ڈاکٹرراحت اندوری مرحوم
اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر ونتر سب
چاقو واقو ، چھریاں وریاں ، خنجر ونجر سب
تاریخ کا سفر جاری رہتا ہے اور ریڈیو برصغیر میں وار د ہوتا ہے تو اس کے خلاف بھی پہلے فتوے سامنے آتے ہیں اور پھر اسی ریڈیو کے ذریعے مذہبی تقریریں کرنے کے لئے ” مقابلہ بازی” شروع ہوجاتی ہے یہاں تک کہ مختلف کانفرنسوں ، مذہبی اجتماعات اور سیرت کے جلسوں میں شرکت کے حوالے سے اپنے ناموں کے ساتھ حضرت فلاں فلاں(ریڈیو فیم) کے الفاظ لکھوانا باعث ”عزت وافتخار” گردانا جاتا رہا ، پھر ٹی وی کی آمد سے ایک بار پھر دوگروہ سامنے آتے ہیں ایک وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہوئے ٹی وی پروگراموں میں شرکت پر آمادہ ہوتا ہے تودوسرا گروہ جو کیمرے کی آنکھ سے خود کو پوشیدہ رکھتے ہوئے عام محفلوں میں بھی کیمرہ مین کودیکھ کر اپنا رومال چہرے کے سامنے رکھ دیتے تھے ، مگر تابہ کے؟ آخر دین کے حوالے سے مذاکروں کے ناتے دوسروں کے مقابلے میں پیچھے رہ جانے کے خوف سے اس ”پردہ نشینی” کو تج دینے پر آمادہ ہو ہی گئے لیکن اب جبکہ بقول مولانا طارق جمیل اگر وی پی این خلاف شرع ہے تو موبائل بھی خلاف شرع ہونا چاہئے کیونکہ اس میں بھی ”سب کچھ” موجود ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ موبائل کے دیگر”خطرناک”ایپس کے مقابلے میں بظاہر بے ضرر ایپ یعنی فیس بک کو ہی کھولیں جو ہر کسی کی دسترس میں ہوتا ہے تو اس میں جتنا”گند” موجود ہے اس پر توبندہ توبہ توبہ کرتا رہ جاتا ہے تاہم اس بارے میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ کسی بھی ایپ کے استعمال کی ذمہ داری دیکھنے والے پرعاید ہوتی ہے اگر کوئی شخص”غلط ایپس” نہیں دیکھنا چاہتا تو اسے کوئی بھی اس کام کے لئے مجبور نہیں کر سکتا ۔ بقول احمد ندیم قاسمی
یہ ارتقا کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے ہیں
Load/Hide Comments