سیاسی نعرے اور یونیورسٹیوں کی بندش

ہمارے پیارے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں شرح خواندگی 100فیصد ہے۔ گو سرکاری اعداو شمار کے مطابق پورے پاکستان کی شرح خواندگی کا تناسب 62 فیصد ہے یعنی کہ ہر دوسرا پاکستانی پڑھا لکھا ہے تاہم سب جانتے ہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔حکومت کے لئے جو بندہ اپنا نام لکھ سکتاہے یا اخبار پڑھ سکتاہے اسے بھی پڑھا لکھا میں شمار کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں پڑھالکھا وہ ہوتاہے کہ جو ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے ۔ بالکل اسی طرح کہ جیسے کرک کی شرح خواندگی واقعی میں صد فی صد ہے کیونکہ یہ سارے لوگ حقیقتاً اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پورے پاکستان میں بہترین سرکاری و غیر سرکاری عہدوں پر بھی براجمان ہیں۔ کرک سے تعلق رکھنے والے ہمارے متعدد دوستوںسے اکثر بات ہوتی رہتی ہے کہ بھئی آپ کرک کے لوگ کیا کھاتے ہیں کہ آپ کے ضلع کا ہر ایک شخص بلا کا ذہین ہے اور ملک کے سب بڑے بڑے عہدوں پر آپ نے قبضہ کیا ہواہے۔ میرے پرزور اصرار پر ایک دوست نے ایک دن بتاہی دیا کہ اس کی دو وجوہات ہیں ایک توہم لوگ بہت محنت کرتے ہیں اور دوسری ان کا کہنا ہے کہ ان کا علاقہ صوابی ، مردان یا بنوں کی طرح زرخیز نہیں لہٰذا انہیں فصلوں کی بجائے اپنے زور بازو پر محنت کرکے گزر بسر کرناہے تو پھر تعلیم ہی ایک زریعہ ہے کہ انہیں نہ صرف اپنے صوبہ کے لوگوں بلکہ پورے پاکستان کے لوگوں کے ساتھ مقابلہ کرکے آگے بڑھناہے ۔ ہمارے پیارے دوست نے یہ بھی بتایا کہ کرک کے لٹریسی ریٹ میں کسی بھی حکومت کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو ، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، عوامی نیشنل پارٹی حتیٰ کہ ایم ایم اے کی پانچ سالہ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی گیارہ سالہ حکومت میں تعلیم کے شعبہ میں اقدامات بہت کم ہیں۔ کرک کے عوام اپنے وسائل اور اپنی محنت کے بل بوتے پر ترقی کررہے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ملک خدادا پاکستان پر حکمرانی کرنے والی ہر سیاسی و نیم سیاسی حکومت کا یہ نعرہ ہے کہ ”تعلیم کا فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے” اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے بھی روز کے روز کانفرنسز اورسیمینار ہوتے رہتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی ساری کی ساری سیاسی جماعتوں کا نعرہ تو ہے کہ تعلیم کا فروغ ان کی اولین ترجیح ہے اور دیگر موضوعات کی طرح تعلیم کے لئے بھی آئے روز سیمینار ہوتے رہتے ہیں جیسے کہ وطن عزیز میں آئے روز ٹریفک قوانین پر سیمینار، صحت سے آگاہی پر سیمینار، آلودگی سے بچائو پر ورکشاپ اور تعلیم کے فروغ پر ورکشاپ اسی طرح چائلڈ لیبر پر کانفرنس اور صوبائی حقوق پر کانفرنس ہوتی رہتی ہیں۔ مگر ہم ان کانفرنسوں ، ورکشاپوں اور سیمینار وں میں کی گئی باتوں میں سے کتنی پر یقین کرتے اور کتنی باتوں پر عمل کرتے ہیں تو یہ ہمیں معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صرف دس فیصد تک اور باقی صرف باتوں کی حد تک اور اس میں عوام کے ساتھ ساتھ حکومت بھی صرف نعروں کی حد تک ہے۔ ایک طرف تعلیم کے فروغ میں صرف خانہ پوری ہورہی ہے تودوسری طرف جو ادارے موجود ہیں ان کے اندر ہونے والے بڑے بڑے دھوکے اور چوریوں کا صد باب بھی نہیں ہورہا۔ آپ آئے رو ز سنتے رہتے ہیں کہ فلاں بورڈ کے امتحانات سے پہلے ہی پرچے آوٹ کرنے والے گروہ کو پکڑ لیاگیا ہے، اس گرفتاری اور چھاپہ کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ اسی بورڈ کے اہلکا ر بھی اس گروہ کاساتھ دیتے ہیں جو ہر بار امتحانات سے پہلے ہی پرچے اس گروہ کے ہاتھ دے دیتا ہے اور یہ گروہ مہنگے داموں طلباء پر بیچ دیتا ہے۔ اسی طرح ایٹا وغیرہ کابھی یہی حال ہے۔ غرض یہ کہ ہر نیا ادارہ جو چوری کی روک تھام کے لئے بنایا جارہاہے وہ خود ہی اس نظام کی تباہی کی طرف ایک ہاتھ آگے بڑھ جاتاہے۔ اور اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی خبر یہ ہے کہ صوبہ میں چالیس فیصد گھوسٹ (بھوت) سکول موجود ہیں اور بااثر افراد نے ان میں سے ایک چوتھائی سکولوں میں اپنے حجرے، گودام اور مال مویشی کے لئے بھاڑے بنا لیے ہیں، یہ انکشاف بھی ہوچکا ہے کہ ان سکولوں کے لئے تعینات ہزاروں معلمین کے علاوہ سینکڑوں بابو اور اردلی باقاعدہ سے تنخواہیں لے رہے ہیں جبکہ محکمہ تعلیم لاکھوں روپے ماہانہ بجلی کا بل بھی باقاعدگی سے ادا کررہا ہے۔ جبکہ حقیقت میں بچوں کو کسی قسم کی تعلیمی سہولیات میسر نہیں ۔ کانفرنسز ، ورکشاپ اور سیمینارز میںکہا جاتارہا ہے کہ تعلیم کے شعبہ میں پیچھے رہ جانے والی قومیں غلاموں کی زندگی گزارتی ہیں لیکن میرے پیارے صوبہ خیبر پختونخوا میںسرکاری یونیورسٹیاںاور تعلیمی ادارے بند کرنے کے لئے کوششیں ہورہی ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ صوبہ کے دور دراز علاقوں میں ماضی میں بننے اور چلنے والی یونیورسٹیوں کو کسی دوسرے علاقہ کی یونیورسٹیوں میں ضم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی اندازہ لگاناہوگاکہ جب دور دراز کے غریب لوگ اپنے ہی علاقہ میں یونیورسٹیوں کی فیسیں نہیں برداشت کررہے وہ دوسرے علاقوں میں جاکر آنے جانے کے اخراجات اور وہاں رھنے کے کھانے کے اخراجات برداشت کرنا کسی طور بھی ممکن نہیں۔ صوبائی حکومت کو اس معاملے پر پوری سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔خداراہم کرک کے ضلع کے لوگوں کی طرح ذہین نہیں ہیں کہ اپنے طور پر اخراجات برداشت کرکے جدید اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں۔ پھر کیا ہوگاہمارا صوبہ پہلے بھی پنجاب اور کراچی کا مقابلہ نہیں کرسکتااور اچھی اچھی نوکریاں وہ لے جاتے ہیں اب اور بھی حالات خراب ہوتے رہیں گے۔ بے روزگاری بڑھتی رہے گی اور ایک دن ہم غربت کے ہاتھوں بھیک مانگنے پر آجائیں گے، خیبر پختونخوا کے عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں ایسے میں پرائیویٹ تعلیمی فیسیں ناقابل برداشت ہو جائیں گی۔

مزید پڑھیں:  اسمبلی یا بازیچہ اطفال