موسمیاتی تبدیلیوں کی کانفرنس اور عالمی سیاست

(گزشتہ سے پیوستہ)
موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی کانفرنس سی او پی29اپنے بنیادی ہدف یعنی 5۔1ایک اشاریہ پانچ ٹرلین ڈالرز کی امداد کے حصول کے لیے19 نومبر تک کسی واضح لایحہ عمل کو تیار کرنے میں کوئی پیشرفت نہیں کر سکی اس کی وجہ اس کانفرنس میں شرکا کی غیر معمولی تعداد ہے جو کہ کانفرنس کے نو دن مکمل ہونے کے باوجود منگل کے دن 77ہزار سے تجاوز کر چکی تھی۔ دوسری جانب کانفرنس کو22نومبر تک اختتام پذیر ہونا ہے اور اس دوران اس کے ایجنڈے پر بہت زیادہ مصروف سرگرمیاں موجود ہیں جن میں موسمیاتی اور ماحولیاتی و بائیو ڈائیورسٹی کے محکموں کے وزرا فوسل فیول یعنی کوئلہ ،گیس اور تیل کی بڑی کمپنیوں کے سربراہان، زرعی خوراک کی پراڈکٹس کے اداروں کے سربراہان ان کے ہمراہ سینکڑوں لابسٹ اور موسمیاتی مالیات کے ماہرین وغیرہ سرکاری اور غیر ریاستی تنظیموں کے ہیڈز اور گروپس یہ سب کے سب بیک وقت ایک دوسرے کے ساتھ اپنے نجی اور ریاستی ایجنڈوں کے ساتھ نبردآزما ہیں ۔اس ساری صورتحال میں ایک نہایت تند قسم کی سیاست نے جنم لیا ہے جس میں ریاستوں کے نمائندے تیل و گیس کمپنیوں کے اعلی عہددار زرعی اجناس سے تیار ہونے والی خوراک کے اداروں کے سربراہان اور ان کے ساتھ ان کے مقاصد کے حصول کے لیے لابی کرنے والے پیشہ ور یا پروفیشنل قسم کے لابیسٹ ایک جانب کو ،جبکہ غریب ملکوں کے سربراہان مملکت اور ریاست، موسمیاتی مالیات کے ماہرین، دنیا میں ماحول اور موسمیاتی معاملات کو فطری حدود میں رکھنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور شعبہ تعلیم و تحقیق سے متعلق ماہرین مخالف سمت کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ تقسیم کچھ ایسی ہی ہے جیسی دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم سر دجنگ کے عروج کی دہائیوں1950 اور 1970 کے دوران تھی ۔بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے اس کانفرنس کو غیر معمولی اہمیت دی ہے لیکن دنیا کے انتہائی طاقت ور ترین معاشی ملکوں جی۔ 20کی برازیل کے شہر ریو ڈی جینیرو میں ہونے والی 19اور 20نومبر کی میٹنگ نے کس حد تک عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی اس کانفرنس کے پیش منظر کو وقتی طور پر دھندلا دیا ہے اور کانفرنس کے امیر اور غریب دونوں شرکا اپنی بہت زیادہ توقعات جی۔20کے اجلاس سے باندھے ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں دنیا کی طاقتور ترین معیشتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا میں غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں موسمیاتی حالات کی تباہ کاریوں کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر امداد کریں ۔عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی کانفرنس میں مدوعین کی غیر معمولی تعداد نے جو کہ بہرحال 2023میں دبئی میں ہونے والی کانفرنس سی او پی 28کے مقابلے میں کافی کم ہے جہاں یہ تعداد 80ہزار تک جا پہنچی تھی، کافی مسائل کھڑے کیے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ میزبان ملک آذربائیجان کے صدر الہام علیژیف نے اپنے افتتا حی خطاب میں فوسل فیول کے استعمال کے حوالے سے ترقی یافتہ ملکوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا -آذربائیجان کی90 فیصد معیشت تیل اور گیس کی ایکسپورٹ سے آنے والی آمدنی پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے اس کو دبئی یا دیگر تیل پیدا کرنے والی ریاستوں کے حوالے سے پیٹرو اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی 2023کے عالمی کانفرنس برائے موسمیاتی تبدیلی دبئی میں ہوئی تھی جس کو سی او پی28کہا جاتا ہے ، موجودہ 2024کی کانفرنس باکو آذربائیجان میں جاری ہے اس کو سی او پی29کہا گیا ہے اور آنے والی 2025 کی کانفرنس سی او پی 30 برازیل میں ہوگی۔ اتفاق یہ ہے کہ تینوں پیٹروا سٹیٹس ہیں اور یہاں کی معیشتوں کا بہت واضح حد تک دارومدار آئل اور گیس کی ایکسپورٹ پر ہے جبکہ یہ کانفرنسز فوسل فیول یعنی تیل گیس اور کوئلے کو تمام موسمیاتی تباکاریوں کی بنیاد قرار دے رہی ہیں اور اس کے عوض یہ ترقی یافتہ ملکوں سے ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا ازالہ چاہتی ہیں۔ کانفرنس کے شرکاکی غیر معمولی تعداد اور اس کے پیٹرو اسٹیٹس میں انعقاد اور انتظامی معاملات کو اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بانکی مون اور ان کے ہمراہ بہت سینیئر کلائمیٹ ڈپلومیٹس نے یا موسمیاتی سفارت کاروں نے کافی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ایک خط بھی موجود سیکرٹری جنرل انتونیو گتیریس کو لکھا ہے جس میں مستقبل میں عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی کانفرنسز کو جامع قابل عمل اور منظم طریقے سے کرانے کے لیے ان میں شرکا کی تعداد کو کم کرنے ان کے فیصلوں پر نفاذ اور جواب دہی کے طریقہ کار کو لاگو کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس بات کو بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ ان کانفرنسوں کو تیل اور گیس پیدا کرنے والی پیٹرو ریاستوں میں نہ منعقد کیا جائے کیونکہ سارا موسمیاتی بگاڑ اور دنیا میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کی وجہ فوسل فیول کا استعمال ہے ۔آذربائجان باکو میں ہونے والی اس کانفرنس کا ایک انتہائی حیرتناک پہلو یہ ہے کہ اس میں تیل پیدا کرنے والے ملکوں، تیل اور گیس کی کمپنیوں کے لابسٹ بھی بڑی تعداد میں آئے ہوئے ہیں ۔انہیں فوسل فیول لابسٹ کہا گیا ہے۔ یہ لوگ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کانفرنس کو کسی ایسے فیصلوں تک پہنچنے سے دور رکھا جائے کہ تیل اور گیس کے درآمد و برآمد ، پیداوار و فروخت کے سارے نظام میں کوئی تبدیلی آئے ۔مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس فورم پر 1773سے زیادہ فوسل فیول لابسٹ موجود ہیں جس کی وجہ سے کانفرنس کے شرکا نو دن گزر جانے کے باوجود کوئی واضح لایحہ عمل کے ساتھ آگے نہیں آسکے ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے ادارے جو بائیو ڈائیورسٹی اور ایگری فوڈ پراڈکٹس بناتے ہیں ان کے بھی سینکڑوں کی تعداد میں لابسٹ آچکے ہیں جو اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ ایگری پراڈکٹس سے گرین ہائوس گیسز کی تباہ کاریاں بڑھتی ہیں ، کانفرنس کے ذمہ داروں کو کوئی اپنے خلاف پالیسی اپنانے سے دور کر سکتے ہیں ۔ موجودہ جاری کانفرنس کا بنیادی فوکس اس وقت اس بات پر ہے کہ کوئی ایسا بہترطریقہ کار وضع کیا جائے جس کے ذریعے ترقی یافتہ ملکوں سے کم از کم اس دہائی کے آخری یا اگلی دہائی کے2035تک ایک اشاریہ پانچ ٹریلین ڈالر سالانہ امداد لے جا سکے۔ یہ امداد ان غریب ملکوں اور ترقی پذیر ملکوں جن میں پاکستان بھی شامل ہے کو دی جائے ۔منگل کی شب تک کانفرنس کے شرکا ایک34صفحات کے ڈرافٹ کو25 صفحات تک محدود کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔اطلاعات یہی ہیں کہ22نومبر تک شاید وہ کوئی ایسی قانونی دستاویز تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں جس پر ترقی یافتہ ملک بھی متفق ہو سکیں۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ برازیل میں ہونے والی جی ۔20کی میٹنگ نے اتنی خطیر رقم کے بارے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی اس مطالبے کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ (جاری ہے)

مزید پڑھیں:  چور ڈاکو سے فسادی اور دہشت گرد تک