خیبر پختونخوا اور بلوچستان دونوں صوبوں میں دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کی شدت اور جانی نقصان زیادہ ہونے کے واقعات میں اضافہ تشویش کی صورتحال میں بطور خاص اضافہ کا باعث ہونا فطری امر ہے ۔ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر آپریشن کا فیصلہ ہو چکا ہے اس کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی جانب سے سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے میں جس طرح تیزی آئی ہے ان کا مقصد جہاں بلوچستان کی طرف سے توجہ میں کمی لانا ہے وہاں خیبر پختونخوا میں وہ اپنی کافی سے زیادہ فعال موجودگی کا بھی احساس دلا رہے ہیں اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ ان کے خلاف کارروائی مزید وسعت پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ کنگھی پھیرنے کی حد تک بھی ہونی چاہئے مشکل امر یہ ہے کہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان میں بھر پور آپریشن پر تو اتفاق کیاگیا مگر خیبرپختونخوا میں تسلسل کے ساتھ عوامی سطح سے لے کر سرکاری سطح تک اس کی مخالفت بلکہ مزاحمت ہو رہی ہے جو فیصلہ کن اقدامات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں حالانکہ خیبر پختونخوا تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات کی زد میں ہے تازہ واقعے میںشمالی وزیرستان کی بائونڈری پر واقع ضلع بنوں کے علاقے مالی خیل میں مسلح دہشت گردوں نے فوج اور ایف سی کی مشترکہ چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا جھڑپ کے دوران 12 سکیورٹی اہلکار شہید اوردس زخمی ہوگئے جن میں صوبیدار سمیت پاک فوج کے دس اہلکار اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے دو اہلکار شامل ہیں جبکہ6 حملے آور بھی مارے گئے۔وزارت داخلہ کے ذرائعکے مطابق منگل کو نیشنل ایکشن پلان (این اے پی)کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران ایم پی سی سے متعلق معاملہ زیر بحث آیا تھا۔کمیٹی نے بلوچستان میں سیکورٹی مسائل سے نمٹنے کے لئے فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن خیبرپختونخوا میں اسی طرح کی کسی بھی کارروائی کو نہ صرف وفاق میں سیاسی جماعتوں نے مسترد کیا بلکہ صوبائی حکومت کی جانب سے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔اس ضمن میں یہ مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ حکومت کوآپریشن شروع کرنے سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ بااثر غیر سیاسی گروہوں کو بھی اعتماد میںلینا چاہئے۔اب شنید ہے کہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے کثیر الجماعتی کانفرنس (ایم پی سی)منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔جس میںصوبے کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی گروہوں کو مدعو کیا جائے گا ایم پی سی کا انعقاد گورنر ہائوس پشاور میں ہونے کا امکان ہے جس میں وزیر داخلہ محسن نقوی کی شرکت بھی متوقع ہے ۔اس کانفرنس میں کیا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اس پر اتفاق رائے ہوتی ہے یا نہیں اس سے قطع نظر انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہیں جب بڑے پیمانے پر لوگ سیکورٹی فورسز کا ساتھ دیںکیونکہ کسی بھی فوجی آپریشن کے دوران مقامی آبادی نہ صرف سماجی ڈھال کا کردار ادا کرتی ہے بلکہ یہ سکیورٹی اداروں کے لئے آنکھ اور کان کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا دونوں صوبوں میں تھوڑے سے مختلف حالات اور فریقوں کے قدر مشترک دہشت گردی کے واقعات اور سیکورٹی فورسز پر حملے ہیں بلوچستان کے عوام کو بھی تحفظات ہیں لیکن بہرحال وہاں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ ایپکس کمیٹی کے فیصلے کے بعد وہاں پر تطہیری کارروائیاں تیز کردی جائیں گی جبکہ خیبر پختونخوا میں پہلے سیاسی و عوامی سطح پر کارروائیوں کے لئے رائے عامہ میں پائی جانے والی بے چینی اور تحفظات کو دور کرنے کی سعی کی جائے گی دیکھا جائے تو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر تو کسی اختلاف اور تحفظات کی گنجائش نہیں البتہ پیدا کردہ حالات کے بارے میں اور کچھ مبینہ پس پردہ کرداروں کے حوالے سے عوامی سوچ اور رائے تحفظات کاباعث ہے جسے اجتماعی شعور اور عوامی دانش کبھی غلط نہیں ہوسکتی کے فارمولے کے تحت دیکھنے اور ان عوامل کے حوالے سے پائی جانے والی بے چینی و تحفظات کو دور کرنے کی طرف توجہ کی ضرورت ہے جس مجوزہ اجلاس او رابطے کا عندیہ دیاگیا ہے اس سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ اس حوالے سے مقتدرہ کے سیاسی و عوامی تحفظات کی وجوہات جاننے میں سنجیدگی ظاہر کرنے لگی ہے جسے سمت درست کرنے کی کوشش قرار دی جا سکتی ہے توقع کی جانی چاہئے کہ اس حوالے سے سنجیدہ مساعی اختیار کی جائیں گی اور سیاسی و عوامی نمائندے بھی بے جا خدشات کے اظہار کی بجائے حقیقی حالات کے مطابق اپنا موقف پیش کرکے اور متین فکری کے ساتھ ٹھوس فیصلہ کی راہ ہموارکرنے میں کردارادا کریں گے اور خیبر پختونخوا سے دہشت گردی کے عفریت کو جڑ سے اکھاڑنے کے اقدامات کی راہ ہموار ہو گی۔